ضیاء محی الدین سے شاباشی کمانے کا اعزاز
بہت ہی برا ہوا تھا۔ کنگ لیئر کی پہلی رات میں اپنے مکالمے بھول گئی تھی۔ چند لمحے بعد میں نے خود کو سنبھالا، خود کو دوبارہ پٹری پر ڈالا اور باقی پرفارمنس میں اڑتی چلی گئی۔ لیکن میں جانتی تھی، تھیٹر کے عقب میں ایک نشست پر ضیاء صاحب بیٹھے ہیں اور انہوں نے مجھے لڑکھڑاتے دیکھ لیا ہے۔
جیسے ہی پرفارمنس ختم ہوئی میں نے انہیں کال کی۔ رات کے 11 بجے تھے۔
حیرت انگیز طور پر انہوں نے فون اٹھا لیا، ”جی!“
”ضیاء صاحب، میں بہت شرمندہ ہوں۔۔۔“
”بہت دیرہوگئی ہے۔ صبح بات کرتے ہیں۔“ انہوں نے فون رکھ دیا۔
میں ضیاء صاحب کی توقعات پر پورا نہیں اتری تھی۔ ضیا صاحب جو ہمیشہ اکمال (perfection) کے مندر کے پجاری تھے۔ میں پوری رات سو نہیں سکی۔
اگلی صبح میں نے ناپا میں ان کے دفتر کی طرف دوڑ لگا دی تاکہ باقاعدہ معافی مانگ سکوں۔ ”میں بہت شرمندہ ہوں،“ میں نے کہا۔ میں رو رہی تھی۔
انہوں نے گہری سانس لی۔ اپنی میز سے ایک ٹشوپیپر نکالا اور مجھے دیا۔
”آؤ ریہرسل کرتے ہیں۔“
میں نے آنسو پونچھ ڈالے۔ ہم نے ریہرسل کی۔
”اچھا اب چلو۔“
میں چل پڑی۔ دوبارہ کوئی غلطی نہیں کی۔ انہیں مایوس کرنے کی خفت کا بوجھ جتنا بھاری تھا، ان سے عقیدت کا پیمانہ اتنا ہی بڑا تھا۔
وہ ایک خاص طریقے سے شاباش کہتے تھے۔
شا-باش نہیں، نہ ہی شاباش۔ بلکہ شابش۔
شابش، شابش، شابش
اور ان کے طالب علم شاذ ہی کبھی یہ سنتے تھے۔
لیکن جب کوئی یہ لفظ سنتا تو اس کا دل کھل اٹھاتا۔ ضیاء محی الدین سے تعریف سننے کی خوشی اتنی ہوتی کہ جی چاہتا بندہ بلند ترین عمارت سے چھلانگ لگا دے۔
میں ان کے مندر میں اس لیے گئی کہ میں اپنے آپ کو توڑ کر پھر جوڑنا چاہتی تھی۔ میں ان بیمار پسوؤں سے جان چھڑانا چاہتی تھی جو مجھے ٹیلی ویژن سے لگ گئے تھے۔ جو چیزیں مجھے اندر سے روک رہی تھیں ان سے چھٹکارا چاہتی تھی اور چاہتی تھی کہ کوئی مجھے میرے منہ پر بتائے کہ میں کتنی نامکمل ہوں۔ نقابوں کی دنیا میں کوئی منہ پر کہہ۔۔۔
ضیاء صاحب کے ساتھ کام کرنا آسان نہیں تھا لیکن ہم اداکاروں میں بڑوں کو خوش کرنے دھن ہوتی ہے۔
اور پھر اس طرح یہ شروع ہوا۔
آڈیشن ہوا۔ کامیاب رہا (شابش)۔ اس کے بعد تین مہینے کی ریہرسل۔
ضیاء صاحب کے کان باریک سے باریک ردوبدل کو بھی پکڑ لیتے تھے۔ صاف تلفظ سے کم کچھ بھی قبول نہیں تھا۔ ایک مرتبہ انہوں نے مجھے ”اہل پنجاب“ کہہ کر بلایا کیونکہ میرا لجہ پنجابی تھا۔ انہوں نے مجھ سے لفظ ”گیا“ بیس مرتبہ بلوایا۔ “ ’گے یا‘ کیا ہوتا ہے؟ گے یا، گے یا۔ْ لفظ ’گَ - یا‘ ہے۔ ان کے یہاں کوئی رعایت نہیں تھی۔
اور وہ ہمیشہ اپنے طلبہ سے پہلے آتے تھے۔
ایک بار میں ریہرسل کے لیے پانچ منٹ دیر سے آئی۔
”میرا“ انہوں نے بعد میں مجھے اشارے سے بلایا۔ ”تم آج دیر سے آئی ہو۔“
”سوری سر۔“
”میری کتاب میں چار بجے کا مطلب چار بجکر ایک منٹ نہیں۔“
”سمجھ گئی۔ سوری سر۔“
ہم ریہرسل کرنے لگے۔ سرا پکڑائی دے گیا۔ ہم کھڑے ہو کر اپنے مکالمے بولتے۔ چلاتے۔ دانت پیستے اور پیٹ کے دم پر لفظوں کا جادو جگاتے۔
وہ اپنی نشست سے ہمیں دیکھتے رہتے۔ سگریٹ جلا لیتے۔
کبھی کبھی کوئی لطیفہ سنا دیتے۔ ہم ان کی کرسی کے گرد گھیرا ڈال لیتے۔ وہ بہت نرمی سے بات کرتے تھے۔
ضیاء صاحب کو فن متاثر کرتا تھا۔ وہ لوگوں سے متاثر نہیں ہوتے تھے۔ (تاوقتیکہ کوئی شخص فن کا ذریعہ ہو۔)
جب میں نے ان کے گزر جانے کی خبر سنی تو دل پر گھونسا لگا۔ میں خوش نصیب تھی ان سے سیکھ سکی۔ ان کے بھتیجے نوید ریاض کی مشکور جنہوں نے مجھے کنگ لیئر کے آڈیشن کے بارے میں بتایا تھا۔ میں نے ان کے اہلخانہ سے تعزیت کی اور اپنے کام میں لگ گئی۔ شام میں سوشل میڈیا دیکھا تو ضیاء صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے والوں کا تانتا بندھا تھا۔ ایک ویڈیو کلپ میں وہ ن م راشد کی نظم پڑھتے دکھائی دے رہے تھے۔
2000ء کےعشرے میں کئی بار میں اپنے نانی، نانی کے ساتھ علی آڈیٹوریم میں گئی اور انہیں یہ نظم پڑھتے دیکھا۔
”زندگی سے ڈرتے ہو؟ زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں۔۔۔“
Comments are closed on this story.