جیل بھرو تحریک کیا ہے اور کس طرح اُلٹی پڑسکتی ہے؟
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چئیرمین عمران خان ”جیل بھرو تحریک“ کے حوالے سے اپنے ممکنہ منصوبوں کا اعلان کرچکے ہیں، انہوں نے مبینہ طور پر پارٹی رہنماؤں کو ایسے تقریباً چار لاکھ کارکنان کی فہرست تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے جو حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے گرفتاریاں دیں گے۔
عمران خان اس احتجاج کے اس نایاب طریقے سے کیا حاصل کر پائیں گے اور کیا نہیں، یہ سمجھنے کیلئے ہمیں برصغیر میں اس کی تاریخ پر نظر ڈالنی ہوگی۔
جیل بھرو تحریک کیا ہے؟
جیل بھرو تحریک، 1947 میں خطہ برصغیر پاک و ہند پر برطانوی راج کے خلاف سیاست دانوں کے وسیع احتجاج کی ایک شکل تھی، جس کا مقصد سرکاری مشینری کا گلا گھونٹنا تھا۔
آسان الفاظ میں کہیں تو حکومتی کاموں میں خلل پیدا کرنا تھا۔
احتجاج کے اس طریقہ کار کو اپنانے والوں میں گاندھی سب سے نمایاں رہنما تھے۔
جیل بھرو تحریک میں شامل ہزاروں سیاسی کارکنان پولیس یا دیگر سیکورٹی فورسز کے پاس پہنچتے ہیں اور خود کو گرفتاری کے لیے پیش کرتے ہیں، یا عملی طور پر کچھ ایسا کرتے ہیں کہ انہیں گرفتار کرلیا جائے، جیسے کہ حکومت کے خلاف توہین آمیز نعرے بازی وغیرہ۔
تقسیمِ ہند سے پہلے اور اب بھی جیلوں میں قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش کافی محدود ہے۔
تقریباً ہمیشہ ہی بڑی تعداد میں لوگوں کو جیلوں میں بند کرنا مشکل عمل ہوتا ہے۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا جیل بھرو مظاہرین فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
حالیہ تاریخ میں، بھارتی سماجی کارکن انّا ہزارے نے 2011 میں جیل بھرو احتجاج کا اعلان کرکے اس وقت کی مرکزی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا۔
ایک بڑے سیاسی بحران کو ٹالنے کے لیے انّا ہزارے کے مطالبے پر حکومت نے شہری محتسب مقرر کرنے کے لیے ”جن لوک پال بل“ کی منظوری دی۔
حکومت کو انّا ہزارے کو بھی رہا کرنا پڑا جو دہلی میں گرفتار تھے۔
آن لائن پٹیشن پر دستخط اور احتجاج کرنے والے لاکھوں ہندوستانیوں نے انّا ہزارے کی حمایت کی۔
اس وقت کی ہندوستانی حکومت نے ہزارے کے جیل بھرو احتجاج کو بے اثر کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کیا، لیکن کچھ کام نہ آیا۔
مثال کے طور پر، ممبئی میں پولیس نے فیصلہ کیا کہ ایم ایم آر ڈی اے گراؤنڈ یا کلینا پولیس گراؤنڈ کے ایک حصے کو جیل قرار دیا جائے اور وہاں موجود ہر شخص کو حراست میں لے لیا جائے۔
جیل بھرو تحریک کس طرح ناکام ثابت ہوسکتی ہے؟
ہندوستان اور پاکستان دونوں کے قوانین ایک ہی برطانوی راج کے ضابطے سے ماخوذ ہیں، اور پاکستانی حکام بھی ویسے ہی حربے استعمال کر سکتے ہیں۔
جیل بھرو احتجاج دو وجوہات کی بنا پر خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
اوّل یہ کہ، پولیس آپ کو اس وقت تک حراست میں نہیں لے گی جب تک کہ آپ کسی جرم کا ارتکاب نہ کریں اور اگر آپ ایسا کرتے ہیں، تو سزا کا خطرہ ہے۔ جو آپ کے پیشہ ورانہ کیریئر کو داغدار کر سکتا ہے اور آپ کو پبلک سیکٹر کی تمام ملازمتوں کے لیے نااہل قرار دے سکتا ہے، بشرطیکہ آپ کی سزا کو کالعدم قرار دے دیا جائے۔
دوم، حکومت کسی بھی جگہ کو عارضی طور پر جیل یا سب جیل قرار دے کر قیدیوں کی ایک بڑی تعداد کو رکھنے کی صلاحیت پیدا کر سکتی ہے۔
یہ عارضی جیل کوئی گھر، اسٹیڈیم یا دیگر جگہ ہو سکتی ہے۔
حالانکہ اس طرح کے اقدام سے بین الاقوامی منظر نامے پر حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔
جیل بھرو تحریک کی کال کوئی یقینی نتیجہ فراہم نہیں کرسکتی، اس کا زیادہ تر انحصار حکومت کے ممکنہ ردعمل پر ہے۔
مارچ 2015 میں، انّا ہزارے نے ایک اور جیل بھرو تحریک کی کال دی، لیکن صرف دو دن بعد ہی انہوں نے دہلی کے جنتر منتر پر اپنا احتجاج ختم کر دیا۔
کیوں؟ کیونکہ اس بار ہندوستان پر نریندر مودی کی زیرِ قیادت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت تھی، اور انّا ہزارے ہندو قوم پرستوں کی وہ حمایت حاصل نہ کر سکے جو انہوں نے 2011 میں کانگریس حکومت کے خلاف حاصل کی تھی۔
کرپس مشن کے بعد برطانوی راج کے خلاف گاندھی کی جیل بھرو تحریک بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔
اس میں 60 سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا گیا اور کئی لوگوں نے طویل عرصہ جیل میں گزارا۔
اگر گاندھی کی اس جیل بھرو تحریک کا مقصد برطانوی راج کو ہندوستان سے انخلاء پر مجبور کرنا تھا تو وہ مقصد پورا نہ ہوسکا۔
پاکستان میں ”جیل بھرو“ کی تاریخ
پاکستان نے 75 سالوں میں صرف ایک جیل بھرو احتجاج دیکھا ہے۔
ضیاالحق کی حکومت کے خلاف ”تحریک بحالی جمہوریت“ (MRD) نے 1980 کی دہائی کے اوائل میں جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا گیا۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ان سیاست دانوں میں شامل تھے، جنہیں فوجی حکومت نے جیل میں ڈالا تھا۔
اس گرفتاری نے انہیں دوام بخشا اور وہ سیاسی منظر نامے پر اجاگر ہوئے۔ یہ گرفتاری ان کے سیاسی کیریئر کا پہلا بڑا سنگ میل ثابت ہوئی۔
پنجاب میں ایم آر ڈی تحریک کے دوران ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا، لیکن سندھ میں اس نے پرتشدد رخ اختیار کر لیا، جہاں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور بالآخر یہاں تحریک کو کچل دیا گیا۔
خالد بن سعید کا ایک تحقیقی مقالہ اس بات کی ایک جھلک پیش کرتا ہے کہ اس طرح کے مظاہرے کیسے نظر آتے ہیں اور کیوں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی کوشش کو تشدد کی کارروائی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
وہ ”Pakistan in 1983: Internal Stresses More Serious than External Problems“ (1983 میں پاکستان: اندرونی کشیدگی بیرونی مسائل سے زیادہ سنگین) میں لکھتے ہیں، ”اگست 1983 کے اواخر میں مخدوم ہالا کے تقریباً 50 ہزار پیروکار گرفتاری کے لیے جمع ہوئے اور کئی گھنٹوں تک قومی شاہراہ بلاک رکھی۔“
”اگست اور ستمبر کے آخر میں جب تحریک تیزی سے عسکریت پسند اور پرتشدد ہوتی گئی تو فوج کو لانا پڑا، اور وسطی و شمالی سندھ کے کچھ اہم قصبوں کا کنٹرول سنبھالنا پڑا۔ تمام یونیورسٹیاں بند کر دی گئیں۔ نواب شاہ، سکھر، لاڑکانہ، جیکب آباد اور خیرپور اضلاع کے ضلعی مجسٹریٹس کے جاری کردہ پریس نوٹ میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان فائرنگ کے تبادلے اور بینکوں، کارخانوں، سرکاری دفاتر اور ریلوے اسٹیشنوں پر حملوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان ویسٹرن ریلوے کے روٹ کے ساتھ واقع کچھ اہم قصبوں اور شہروں میں ہونے والے عسکریت پسند مظاہرے سندھ اور پنجاب کے درمیان ریلوے مواصلات کو متاثر کرنے کے لیے کئے گئے تھے۔ یہ بھی تجویز کیا گیا کہ مقصد کراچی کی بندرگاہ سے سامان خاص طور پر تیل کی درآمد پر انحصار کرنے والے پنجاب کے تاجروں اور کاروباری افراد کو ٹرینوں پر گھات لگانا اور رکاوٹیں کھڑی کرکے نقصان پہنچانا تھا۔“
خیال کیا جاتا ہے کہ 1983 میں جب سندھ میں تحریک اپنے عروج پر تھی تو پُرتشدد واقعات نے حکام کو موقع فراہم کیا کہ وہ اس تحریک کو کچلیں۔
بعد میں، 1980 کی دہائی کے بہت سے سیاسی کارکن یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ اگرچہ ایم آر ڈی اپنے مقاصد حاصل نہیں کر پائی، لیکن اس نے عوام میں سیاسی بیداری پیدا کی۔
کیا یہ آپ کو کچھ سُنا سُنا سا نہیں لگتا؟
Comments are closed on this story.