فواد چوہدری کو مشروط ضمانت پر رہا کردیا گیا
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے گرفتار رہنما فواد حسین چوہدری کو مشروط ضمانت ملنے کے بعد پر رہا کردیا گیا۔
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیسشن کورٹ نے الیکشن کمیشن کے خلاف نفرت پھیلانے کے کیس میں گرفتار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماء فواد چوہدری کی ضمانت آئندہ ایسی گفتگو سے پرہیز کی شرط پر منظور کرلی گئی۔
سیشن جج فیضان حیدر گیلانی نے درخواست ضمانت پر سماعت کی، جس میں تفتیشی افسر نے کیس کا ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کیا۔
فواد چوہدری کے وکیل بابراعوان نے دلائل میں مؤقف اپنایا کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن مدعی مقدمہ ہیں، الیکشن کمیشن کے سیکرٹری انفرادی طور پر خود ریاست نہیں، بغاوت کی دفعہ انفرادی طور پر کچھ نہیں، بغاوت کی دفعہ کو سیاسی رنگ دیا گیا ہے۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ فواد چوہدری کو جھوٹے کیس میں نامزد کیا گیا، ان پر لگی دفعات پر عدالتوں کے کم فیصلے موجود ہیں، الیکشن کمیشن نہ گورنمنٹ ہے نہ ہی ریاست، بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق یہ اتھارٹی ہے، جس طرح کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کیس میں زیادہ سے زیادہ صرف دفعہ 501 (1) لگا سکتے تھے، ان دفعات میں زیادہ سے زیادہ سزا 10 سال یا عمر قید اور کم سے کم تین سال قید ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ فوادچوہدری کا کہنا ہے گھروں تک چھوڑ کر آئیں گے اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا آپ کو پاکستان میں لٹریسی ریٹ کا پتہ ہے؟
پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا کہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، آزادی اظہار رائے کا مطلب کسی شخصیت کا کباڑا کرنا نہیں ہوتا، الیکشن کمیشن کے ملازم کو منشی بنا دیا گیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ منشی کے لفظ کو غلط کیوں سمجھا جارہا ہے؟
پراسیکیوٹرنے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ملازم کو ٹارگٹ کرکے منشی لفظ استعمال کیا گیا۔
عدالت نے کہا کہ اپنے بیان سے تو فواد چوہدری انکاری نہیں۔
پراسیکیوٹر نے درخواست ضمانت خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری نے پروگرام میں کہا اس ملک میں بغاوت فرض ہے، بیان سے عوام میں نفرت پھیلائی جارہی ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری کا فوٹوگرامیٹک اور وائس میچ ٹیسٹ ہوچکا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اگر فواد چوہدری اپنا بیان مان رہے ہیں تو ٹیسٹ کیوں کروائے گئے؟
وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ فواد چوہدری ٹرائل کے دوران اپنے بیان سے مُکرسکتے ہیں، جس کے لیے فوٹوگرامیٹک ٹیسٹ کرایا گیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ قانون کولونیل دور پر مبنی ہے، کچھ دفعات واپس کولونیل دور میں لے جاتی ہیں، پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 124 اُن دفعات میں سے ایک ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے بھی درخواست ضمانت مسترد کرنے کی استدعا کی۔
دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے 20 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض فواد چوہدری کی مشروط ضمانت منظور کرلی۔
ضمانت منظور ہونے کے بعد فواد چوہدری کے بھائی فیصل چوہدری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ تاریخی جدوجہد پر بابر اعوان کا مشکور ہوں، بابراعوان نے بہادری سے مقدمہ لڑا۔
فیصل چوہدری نے پارٹی قیادت اور کارکنان کا بھی شکریہ ادا کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری کو لندن سے آنے والی ہدایت پر گرفتار کیا گیا تھا۔
میڈیا سے گفتگو میں فواد چوہدری کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ پہلی مرتبہ آئین اور انسانی حقوق کی بے توقیری دیکھی۔
انہوں نے کہا کہ قانون کی بالادستی کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا، ملک کے ایک طرف ایک کھائی اور دوسرا بحالی کا راستہ ہے، پورا پاکستان عمران خان کےبیانیہ کے پیچھے کھڑا ہے۔
بابراعوان نے مزید کہا کہ ظالم نظام سےعوام کی جان چھوٹنے والی ہے۔
پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے کہا کہ ملک میں قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں، اب برائے راست قانون کو چیلنج کیا جارہا ہے، بابراعوان نے بہادری سے فواد چوہدری کا مقدمہ لڑا۔
اس موقع پر فواد چوہدری کی اہلیہ حبا چوہدری کا کہنا تھا کہ ہمیں عدالتوں سے ہی انصاف ملا ہے، اپنے وکلاء کی بہت بہت شکر گزار ہوں، اپنی بیٹیوں کے ساتھ اڈیالہ جارہی ہوں، فواد چوہدری کو آج گھر لے جانے کا کہا تھا، آج ہی لے جارہی ہوں۔
حماد اظہر نے کہا کہ بے بنیاد کیس کو آگے بڑھایا گیا ہے، پورا پاکستان انصاف مانگ رہا ہے، انصاف نہیں ہوگا تو معاشرہ تباہ ہی ہوگا۔
اور اب فواد چوہدری کو اڈیالہ جیل سے رہا کردیا گیا ہے، اس موقع پر کارکنان کی بڑی تعداد جیل کے باہر موجود رہی اور نعروں میں فواد چوہدری کا استقبال کیا گیا۔
Comments are closed on this story.