Aaj News

جمعہ, دسمبر 27, 2024  
24 Jumada Al-Akhirah 1446  

نقیب اللہ قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، راؤ انوار بری

عدالت نے دیگر تمام ملزمان کو بھی بری کردیا۔
اپ ڈیٹ 23 جنوری 2023 03:24pm
نقیب اللہ کو 13 جنوری 2018 کو مبینہ جعلی پولیس مقابلےمیں مارا تھا - تصویر/ فائل
نقیب اللہ کو 13 جنوری 2018 کو مبینہ جعلی پولیس مقابلےمیں مارا تھا - تصویر/ فائل

کراچی کی انسداد دہشتگردی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے راؤ انوار کو بری کردیا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پراسیکیوشن الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی۔

عدالت نے دیگر تمام ملزمان کو بھی بری کردیا۔

راؤ انوار سمیت ڈی ایس پی قمر احمد، سب انسپکٹر انار خان، انسپکٹر امان اللہ مروت سمیت دیگر سترہ ملزمان نامزد تھے۔

سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ میرے خلاف غلط کیس بنایا گیا تھا، آج عدالت نے انصاف کردیا۔

نقیب اللہ کو 13 جنوری 2018 کو کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا تھا، کیس 4 سال تک چلتا رہا جس کا فیصلہ 14 جنوری 2023 کو محفوظ کیا گیا تھا۔

قتل کا مقدمہ نقیب اللہ کے والد کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، مقدمے میں راؤ انوار سمیت ان کی ٹیم کو نامزد کیا گیا تھا۔

کیس میں اس وقت کے چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیا تھا۔

سندھ حکومت نے بھی آئی جی سندھ کو انکوائری کمیٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔

فیصلہ سنائے جانے سے قبل سابق ایس ایس پی ملیر راؤانوار، ڈی ایس پی قمر اور ملزمان عدالت پہنچے تھے۔

اس موقع پر انسداد دہشتگردی عدالت میں سیکیورٹی سخت رہی جبکہ غیرمتعلقہ افراد اور میڈیا کےعدالتی احاطے میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی۔

واضح رہے کہ اس کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت دیگرملزمان پر25 مارچ 2019 کو فردجرم عائد کی گئی تھی تاہم ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا۔

راؤ انوار اور دیگر ملزمان پر 25 مارچ 2019ء کو فرد جرم عائد ہوئی تھی، ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، مقدمے میں ملزمان کے خلاف 60 گواہان تھے۔

اس مقدمے میں ملزمان کے خلاف 60 گواہ موجود تھے، عدالت نے مدعی مقدمہ اور ملزمان کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد 14 جنوری کوفیصلہ محفوظ کیا تھا۔

نقیب اللہ قتل کیس کا پس منظر

کراچی کے علاقے ملیر شاہ لطیف ٹاؤن میں 13 جنوری 2018 کو سابق ایس ایس پی ملیرراؤانوارنے نقیب اللّٰہ نامی نوجوان کو دیگر3 افراد کے ہمراہ مبینہ جعلی پولیس مقابلےمیں مارا تھا، تاہم اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پرشدید ردعمل سامنے آیا جس کی وجہ دہشتگرد قراردیے جانے والے نقیب اللہ کا سوشل میڈیا پروفائل تھا جس کے مطابق وہ ایک لبرل اور فن کا دلداہ نوجوان تھا، مختلف فنکاروں کے ساتھ تصویریں کھنچوانے والا نقیب اللہ ماڈل بننے کا خواہشمند تھا۔

اس معاملے پرچیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا تھا۔

معاملے پر تشکیل دی جانے والی تحقیقاتی کمیٹی کی ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوارکومعطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں ایس ایس پی کےعہدے سے ہٹاتے ہوئے ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نام شامل کردیا گیا تھا۔

معاملے پرسپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی ازخود نوٹس لیا تھا جہاں راؤانوارنےخود کو سرنڈر کردیا تھا، بعد ازاں انہیں کراچی منتقل کردیا گیاتھا۔

نوجوان کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف بڑے پیمانے پراحتجاج کیا گیا ، انسداد دہشتگردی عدالت نے 25 جنوری 2019 کو راؤ انوار پر فردجرم عائد کرتے ہوئے نقیب اللہ محسود کیخلاف دہشت گردی، اسلحہ و بارود رکھنے کے الزام میں دائر5 مقدمات خارج کرتے ہوئے الزامات کو گمراہ کن قراردیا تھا۔

Naqeebullah Mehsud