Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

امریکا قرض لینے کی آخری حد پر۔ ڈالر کی قیمت گرنے کا امکان

امکان ہے کہ کانگریس تناؤکے باعث قرض کی حد بڑھانے پرراضی نہیں ہوں گے
شائع 21 جنوری 2023 02:19pm
تصویر: اے ایف پی
تصویر: اے ایف پی

ورلڈ سُپرپاورامریکا قرض لینے کی آخری حد تک پہنچ گیا ہے، کانگریس کے ساتھ تناؤکے باعث امکان ہے کہ وہ قرض کی حد بڑھانے پرراضی نہیں ہوں گے اور تاریخ میں پہلی بار یہ صورتحال جانتے بوجھتے امریکا کو ڈیفالٹ ہونے کی طرف لے جاسکتی ہے۔

امریکہ کے محکمہ خزانہ نے ادائیگی کے ڈیفالٹ سے بچنے کیلئے چند فوری اورخصوصی اقدامات اٹھائے ہیں کیونکہ قرض کی آخری حد چھونے کے باعث امریکی حکومت کانگریسکی جانب سے قرض حاصل کرنے کی لِمٹ یعنی حد کو بڑھانے پر راضی ہونے تک مزید رقم قرض نہیں لے سکتی۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت کے قرض حاصل کرنے کی موجودہ حد تقریباً 31.4 کھرب ڈالر ہے۔ اور دیکھا جائے تو 1960 کے بعد سےسیاستدانوں نے قرض کی حد میں 78 باراضافہ، توسیع یا نظرثانی کی ہے۔ گزشتہ 6 ماہ میں اس حد پر3 مرتبہ نظر ثانی کی گئی ہے۔ لیکن اس بار صورتحال تھوڑی مختلف ہے کیونکہ کانگریس میں معاملات گذشتہ دو ہفتوں سے تناؤ کا شکارہیں یعنی جب سے ریپبلکنز نے ایوانِ نمائندگان کا کنٹرول حاصل کیا، وہ مسلسل اخراجات میں کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

خدشات جنم لے رہے ہیں کہ اس بارسیاستدان ردِ عمل ظاہر کرنے میں (یعنی قرض حاصل کرنے کی حد میں اضافے کے حوالے سے) سست روی کا مظاہرہ کریں گے، جس کی وجہ سے امریکا اپنی تاریخ میں پہلی بارجان بوجھ کر ڈیفالٹ کی جانب جاسکتا ہے اور ایسی صورت میں وہ سرمایہ کاروں کا اعتماد کھوسکتا ہے۔

امریکا کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟

آئندہ چند ماہ کے لیے اکثریتی آبادی کو معاشی صورتحال کے اثرات محسوس نہیں ہوں گے اوراگرہوئے بھی تو انتہائی کم۔ امریکی محکمہ خزانہ قرض لینے کی حد تجاوز کرنے سے روکنے کے لیے اقدامات کرکے صورتحال کو سنبھال سکتا ہے۔

ماضی میں ایسی صورت حال میں وفاقی ملازمین کے ریٹائرمنٹ اور ہیلتھ بینیفٹ فنڈز میں کی جانے والی سرمایہ کاری معطل کر دی گئی تھی اور پھر بہتری کے بعد فنڈز کا دوبارہ اجرا کر دیا گیا تھا۔

لیکن 2011 میں اس مسئلے پر تعطل کی وجہ سے کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ’ایس اینڈ پی‘ ملک کی درجہ بندی گھٹانے پرمجبور ہوگئی تھی اورایسا تاریخ میں پہلی بارہوا تھا۔ حکومتی تجزیہ کاروں نے اندازہ لگایا ہے کہ رواں سال تاخیر کی وجہ سے امریکی ٹریژری کے لیے قرض لینے کی شرح میں کم از کم 1.3 ارب امریکی ڈالرکا اضافہ ہوا کیونکہ سرمایہ کاروں نے غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے زیادہ شرح سود کا مطالبہ کیا۔

تجزیہ کارپہلے سے ہی یہ توقع کر رہے ہیں کہ رواں سال اس موضوع پر ہونے والی بحث مالیاتی بازاروں میں بے چینی کا سبب بنے گی۔ اورایوان نمائندگان میں رپبلکن سینیٹرز کے درمیان اختلافات اس صورت حال سے نمٹنے میں مزید مشکلات پیدا کر سکتے ہیں

ڈالرکمزور ہوجائے گا

خصوصی اقدامات کم ازکم جون تک امریکا کیلئے مہلت حاصل کرسکتے ہیں لیکن اس وقت تک حکومت اپنے بل ادا نہیں کرسکے گی اور یہی وہ منظر نامہ ہے جسے تجزیہ کار’حقیقی معاشی تباہی’ کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے بچنا ہے توحکام کو ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی۔

عالمی مالیاتی منڈیوں میں میں امریکی قرضوں کی بہت زیادہ تجارت کی جاتی ہے کیونکہ امریکی بانڈز کی خریداری کوکم خطرناک سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے لیکن ڈیفالٹ ملک کا اعتبار برباد کرسکتا ہے۔ بطورکرنسی ڈالر کمزور ہو جائے گا اور احکومت کیلئے قرض لینے پر شرح سود بڑھ جائے گی یعنی مہنگے قرضے ملیں گے جس کا اثرعام لوگوں پر بھی ہو گا کیونکہ اس کے نتیجے میں رہن، کریڈٹ کارڈ کے قرضوں اور دیگر قرضوں کے لیے سود کی شرح زیادہ ہو جائے گی۔

صورتحال کا اس حد تک پہنچنا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا ہے اور اس سے صارفین کے اعتماد اورمعیشت کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچے گا جو پہلے ہی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ییلن نے حال ہی میں خبردار کیا ہے کہ ’حکومتی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکامی امریکی معیشت، تمام امریکیوں کی روزی روٹی اور عالمی مالیاتی استحکام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گی۔

دوسری جانب صدرجوبائیڈن نے اخراجات میں کٹوتیوں کی تجویز کو مسترد کیا ہے۔

یہ مسئلہ پیدا کیسے ہوا؟

قرض کی حد پہلی بار 1917 میں متعارف کرائی گئی تھی، جس کا مقصد پہلی جنگ عظیم کے دوران حکومت کو رقم اکٹھا کرنے کے لیے کُشن فراہم کرنا تھا۔اصولی یا نظریاتی طور پر یہ کانگریس کے اخراجات کو کنٹرول کرنے کا ایک طریقہ فراہم کرتا ہے۔ لیکن قرض کی زیادہ سے زیادہ حد کے متعلق رسہ کشی وقت کے ساتھ نقصان دہ ہوتی گئی کیونکہ سیاسی تقسیم اور امریکی قرض (جو ایک دہائی میں تقریباً دوگنا ہو گیا ہے) دونوں میں اضافہ ہوا۔

یہ جزوی طور پر 2008 کےمالیاتی بحران اور (کووڈ) وبائی امراض کے دوران حکومت کی طرف سے کیے گئے نمایاں اخراجات کی وجہ سے ہے، لیکن یہ اس کا نتیجہ بھی ہے کہ ملک 2001 سے مسلسل بجٹ خسارے میں چل رہا ہے اور یہ اپنی آمدن سے زیادہ خرچ کررہا ہے۔اب قرض کی حد امریکی سیاست میں مستقل طور پرسیاسی سودے بازی کی چِپ بن گئی ہے۔

اس مسئلے پر 2011 میں پیدا ہونے والا تنازع اس وقت کے صدر براک اوباما کی جانب سے 900 ارب ڈالر سے زیادہ کے اخراجات میں کمی کرنے پر اتفاق کے بعد حل ہوا تھا، جس کی وجہ سے قرض کی حد میں اتنی ہی رقم کی کمی واقع ہوئی۔ ریپبلکنز اس باربھی اخراجات میں کٹوتیوں پر زور دے رہے ہیں، جسے ڈیموکریٹس نے مسترد کر دیا ہے۔

United States

Congress

America

default