Aaj News

اتوار, نومبر 03, 2024  
01 Jumada Al-Awwal 1446  

پاکستانی شہری بھارت میں مزارات کی زیارت کیسے کرسکتے ہیں

حکومت دورے میں معاونت کرے گی بس آپکو درخواست وقت پر دینا ہوگی
شائع 19 جنوری 2023 11:26am
درگاہ کواجہ معین الدین چشتی۔ تصویر بشکریہ اونلی کشمیرڈاٹ کام
درگاہ کواجہ معین الدین چشتی۔ تصویر بشکریہ اونلی کشمیرڈاٹ کام

بھارت میں مدفون مذہبی شخصیات سے اُنسیت واحترام رکھنے والوں کے لیے پاکستان میں ایک مستحکم سرکاری طریقہ کار موجود ہے جس کے تحت ویزے کا مسئلہ آپ کی راہ کی رکاوٹ نہیں بنے گا۔

پاکستان اور بھارت نے 1974 میں مذہبی مقامات کے دورے سے متعلق ایک پروٹوکول پر دستخط کیے تھے تاکہ زائرین دونوں ممالک کے درمیان آسانی سے نقل و حرکت کرسکیں۔ اگرچہ کچھ مشکلات ہیں ہیں لیکن یہ عمل کافی مستحکم ہے اوردونوں جانب سے زائرین باقاعدگی سے آتے جاتے رہتے ہیں۔

ہر سال پاکستان کی جانب سے گھوٹکی میں شادانی دربارحیات پتافی سے لے کر گردوارہ پنجہ صاحب حسن ابدال تک ہندو اور سکھ زائرین کے لیے ویزہ اور دوسری سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ بدلے میں بھارت نے بھی پاکستانی زائرین کے لیے 6 مزارات پرجانے کی سہولت دے رکھی ہے۔

تعلقات میں دراڑوں کے باعث بھارت کی جانب سے پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والے سیاحوں کوانفرادی سطح پر ویزے جاری نہیں کیے جاتے ، اس لیے وہاں کے مزارات پرجانے کے خواہشمند افراد مخصوص تاریخوں پر کوٹہ سسٹم کے تحت گروپ کی شکل میں دورہ کرتے ہیں۔

پاکستان میں وزارت مذہبی امور کے فوکل پرسن برائے میڈیا عمر بٹ نے بتایا، ”گزشتہ سال (2022) میں ایک دورہ منسوخ کرنا پڑا کیونکہ بھارت نے زائرین کو ویزے جاری کیے تھے لیکن ان کے ساتھ آنے والے عہدیداروں کو نہیں۔ نتیجتا ہمارے پاس دورہ منسوخ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ ہم حکام کے بغیر زائرین کو نہیں بھیج سکتے۔“

ان چھ مقامات میں سے ہر ایک کے لیے مختلف کوٹہ مختص کیا گیا ہے، جس کا انحصار اجتماع کے سائز اور پاکستان سے اجازت لینے کی درخواست دینے والے افراد کی تعداد پر ہے۔ سب سے چھوٹا کوٹہ 150 اورسب سے بڑا 500 افراد کا ہے. یہ دورے صرف معزز شخصیات کے عرس یا برسی کے موقع پر کیے جاسکتے ہیں۔

اس پورے عمل کا انتظام وزارت مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی کے زیرانتظام کیا جاتا ہے۔

پہلے مرحلے میں وزارت عرس سے 6 ماہ قبل درخواستیں طلب کرتی ہے۔ درخواستوں کا اعلان ایک پریس ریلیز میں کیا جاتا ہے جو آپ کسی نیوز ویب سائٹ یا اخبار میں دیکھ سکتے ہیں ، تاہم وزارت کی ویب سائٹ پر نظر رکھنا زیادہ بہتر ہو گا۔

درخواستیں وزارت کی ویب سائٹ پر ایک فارم کے ذریعہ جمع کرائی جاتی ہیں۔ جن پرہزار روپے کی ناقابل واپسی فیس بھی وصول کی جائے گی۔ آپ سےبنیادی معلومات کے ساتھ ساتھ بھارت میں کسی عرس کے موقع پرکیے جانے والے پچھلے دورے کی تفصیلات بھی مانگی جائیں گی۔

یہاں تک کہ اگر آپ نے بھارت میں کسی مزار کی زیارت کی ہے تو آپ خود بخود نااہل نہیں ہوں گے۔ اگر درخواستوں کی تعداد کسی خاص مزار کی زیارت کیلئے مختص کردہ کوٹہ سے زیادہ ہے تو درخواستیں جمع کرانے کے ایک ماہ بعد امیدواروں کا انتخاب رائے شماری کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

ووٹنگ مکمل ہونے کے بعد وزارت ویب سائٹ کے پورٹل پر متعلقہ سال کے لیے زائرین کے ناموں کا اعلان کرے گی جہاں آپ اپنے شناختی کارڈ نمبر کا استعمال کرتے ہوئے اسے ٹریک کرسکیں گے۔

اگرآپ کو منتخب کیا گیا تو آپ سے خود آن لائن ویزا درخواست جمع کرانے کے لئے کہا جائے گا ، لیکن ساتھ ہی آپ سے اپنا پاسپورٹ بھی وزارت میں جمع کروانے کے لیے کہا جائے گا جو ویزاآنے پر ہندوستانی ہائی کمیشن سے آپ کا پاسپورٹ حاصل کرنے سمیت باقی طریقہ کار میں مدد دے گا۔

زیارت کے لئے ادا کیے جانے والے اخراجات مختلف عوامل کی بنیاد پر مختلف ہوتے ہیں جیسے کہ یہ کتنا دور ہے اور آیا مزار میں زائرین کے لئے رہائش ہے یا کیا کسی نجی ہوٹل کی ضرورت ہوگی۔ افراط زر اور شرح مبادلہ کی بنیاد پر بھی اس دورے پرآنے والے اخراجات ہرسال مختلف ہوتے ہیں۔ جیسے کہ سال 2023 میں امیر خسرو کے مزارجہاں ہوٹل کے کمرے کرائے پر دیے جائیں گے، کی زیارت پر لگ بھگ 35 ہزار روپے خرچ آئے گا۔

بھارت جانے کیلئے زیادہ ترسفربذریعہ ٹرین سفرکیا جاتا ہے اورتمام زائرین واہگہ بارڈرلاہورسے روانہ ہوتے ہیں، سوائے چند ایک کیسزکے جہاں زائرین بذریعہ بس سفرکرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ دورے آخری لمحات میں ویزہ جاری نہ ہونے یا دیگر مسائل کے باعث ملتوی بھی کردیے جاتے ہیں۔

عمر بٹ کے مطابق ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے، ٹرینیں عموماً محفوظ اور قابل بھروسہ ہوتی ہیں، اگر دورہ آخری لمحات میں منسوخ کردیا جائے تو زائرین کو ان کی ادا کی جانے والی رقم واپس کردی جاتی ہے۔

مزارات اور ان کا کوٹہ

یہاں ان مزارات کی تفصیلات ہیں جہاں آپ جا سکتے ہیں اور زائرین کی تعداد بھی جس پر بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کی جانب سے اتفاق کیا گیا ہے۔ ہم نے عرس کی تاریخوں (ہجری کیلنڈر) کا بھی ذکر کیا ہے لیکن یاد رکھیں کہ درخواست متعلقہ تقریب سے 6 ماہ قبل دینی پڑتی ہے۔

خواجہ معین الدین چشتی

 اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتی کا مزار (تصویربشکریہ ڈان)

یہ مزار راجستھان کے علاقے اجمیر شریف میں واقع ہے جس کے لیے 500 زائرین کا سب سے بڑا کوٹہ رکھا گیا ہے، لیکن اس کے لیے ہر سال تقریباً 5 ہزار درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔ خواجہ معین الدین چشتی کا عرس ہرسال 6 رجب کو منعقد ہوتا ہے۔

نظام الدین اولیاء

 دہلی میں نظام الدین درگاہ ۔ تصویر بذریعہ وکیپیڈیا

دہلی کے مغرب مغربی میں واقع اس درگاہ کے لئے 250 زائرین کا دوسرا سب سے بڑا کوٹہ رکھا گیا ہے، عرس 18 ربیع الثانی کو منایا جاتا ہے۔

امیر خسرو

 امیر خسرو کا مزار۔ تصویر بذریعہ یوٹیوب / نیازی صوفی

یہ مزار دہلی میں نظام الدین کی درگاہ کے بالکل بغل میں واقع ہے۔ پاکستان 17 شوال کو ہونے والے عرس میں زیادہ سے زیادہ اپنے 200 زائرین بھیج سکتا ہے۔

احمد سرہندی مجدد الف ثانی

 مجدد الف ثانی کا مزار۔ تصویر بشکریہ مکتبہ ڈاٹ اوآرجی

سرہند شریف بھی کہلائی جانے والی اس درگاہ کے لیے پاکستان سے آنے والے زائرین کا کوٹہ 200 زائرین کا ہے۔ عرس ہر سال 28 صفر کو منایا جاتا ہے۔

علاؤ الدین صابر

 علاؤ الدین صابرکا مزار۔ تصویر بشکریہ ولی وفلاح ڈاٹ کام

یہ مزارجسے کلیار شریف بھی کہا جاتا ہے، اتراکھنڈ میں واقع ہے اور اس میں پاکستان کے 150 زائرین کا کوٹہ رکھا گیا ہے۔ عرس 13 ربیع الاول کو منایا جاتا ہے۔

حافظ عبداللہ شاہ

 حافظ عبداللہ شاہ کا مزار۔ تصویربشکریہ اردوپوائنٹ

پاکستان سے 150 زائرین ہر سال آگرہ میں واقع اس مزار کی زیارت کرسکتے ہیں۔ عرس 15 ربیع الثانی کو منایا جاتا ہے۔

winter tourism

RELIGIOUS SHRINE

INDIA PAKISTAN RELATIONS

KHAWAJA MOIN UD DIN CHISHTI

NIZAM UD DIN AULIYA

AMIR KHUSRO