’اتنی مقبولیت 70 اقساط نے نہیں دی جتنی ہٹلر دے گیا‘
پاکستانی ڈراموں میں آپ کو بھارت کی سُگھڑ گوپی بہو کی طرح سرف سے لیپ ٹاپ کی دھلائی دیکھنے کو نہیں ملے گی نہ ہی شادی کیلئے ہیروئن کی فرمائش پر ہیرو ہاتھ بڑھا کر کڑکتی بجلیوں کے درمیان سے آسمان سے تارے توڑلانا ممکن کردکھائے گا۔ لیکن ڈرامہ تو پھر ڈرامہ ہے نا ، اسکرپٹ خامیوں سے پاک ہوتب بھی دیکھنے والے قیامت کی نگاہ رکھتے ہیں خصوصاً بات جب سوشل میڈیا صارفین کی ہو۔
آن ائرڈرامہ سیریل ’بےپناہ‘ میں بھی یہ کہانی کا پلاٹ نہیں تھا بلکہ خالصتاً مشرقی انداز و اطوار کی حامل ہیروئن کے ہاتھ میں پکڑی کتاب تھی جس نے صارفین کی توجہ اپنی جانب کھینچی۔
ڈرامے کی کہانی 2 لڑکیوں گُل (کنول خان ) اوررشنا (ایشل فیاض) کے گرد گھومتی ہے جو ایک دوسرے سے بالکل مختلف فطرت کی حامل ہیں۔ رشنا کو خود غرض اورلالچی دکھایا گیا ہے جواپنے سوا کسی کا نہیں سوچتی جبکہ گُل ایک سمجھدارلڑکی ہے جو خاندان کی عزت اور وقارکو مقدم سمجھتے ہوئے تقدیرکے لکھے پرشاکررہتی ہے۔
رشنا کی منگنی بچپن سے ہی اس کے کزن سے ہو گئی تھی لیکن وہ لالچ میں آکرایک امیرآدمی سے شادی کرلیتی ہے اور گھرسے بھاگ جاتی ہے جس کے بعد گُل کی شادی رشنا کےمنگیترسے ہوجاتی ہے۔ لیکن معاملات یہیں نہیں رکتے ، رشنا کو اس بگڑے امیرزادے سے طلاق ہوجاتی ہے اور وہ واپس اپنے گھرآجاتی ہے۔
گُل کے حالات اور ہٹلر کا ’فاشسٹ سیاسی منشُور‘
ٹوئٹرپروائرل تصویرمیں اس ڈرامے کی 71 ویں قسط میں مرکزی کردار گُل کو مسکراتے چہرے کے ساتھ جرمنی کی نيشنل سوشلسٹ جرمن وركرز پارٹی (نازی) کے لیڈر ایڈولف ہٹلر کی متنازع کتاب Mein Kamph (میری جدوجہد ) پڑھتے دکھایا گیا ہے ۔
ہٹلرکے حالات زندگی اور ڈرامے میں گُل کے موجودہ حالات کے ’کامبی نیشن‘ کے ساتھ یہ مسکراہٹ تو حیرت کا باعث تھی ہی لیکن جو چیز اصل اچنبھے کا باعث بنی وہ پاکستانی ڈراموں میں ہیروئن کا ایسا ذوق ہے۔ ٹوئٹر پرحیرت کا اظہار کرنے والوں نے تبصروں میں خوب پوسٹ مارٹم کیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بھرپورعروج کے بعد زوال دیکھنے والی پاکستان ڈرامہ انڈسٹری ایک بارپھرسے اپنے پیروں پرکھڑی ہے اورناظرین کو ’سب سے اہم موضوع‘ یعنی خاندانی لڑائی جھگڑے، ساس بہو کی لڑائیوں اور سازشوں کے درمیان معاشرے کی تلخیاں اجاگر کرتے چند بہترین ڈرامے بھی دیکھنےکو مل ہی جاتے ہیں لیکن ایک دم سے اتنی ترقی کہ سیدھی سادی گھریلو لڑکی ڈائریکٹ ہٹلرکا ’فاشسٹ سیاسی منشور‘ پڑھنے لگے۔
ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا واقعی اردو ادب کی دلدادہ گُل ہٹلرکی کتاب پڑھ رہی تھی یا پھراس سین کی عکسبندی کے دوران جو کتاب دستیاب تھی اٹھا لی گئی۔
ڈرامے کی رائٹر نزہت سمن نے آج ڈیجیٹل کی جانب سے گل کے کرداراوراس کتاب کے انتخاب سے متعلق استفسار پرانتہائی حیرت کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ، ’ مجھے اس بارے میں کچھ علم نہیں کیونکہ گل اردو زبان میں دلچسپی رکھنے والی اورشاعری کو پسند کرنے والی لڑکی ہے تو اس کے ہاتھ میں ’ہٹلرکی کتاب‘ کیسے آگئی، میں نہیں جانتی۔’
نزہت سمن کے مطابق یہ ڈرامے کے مناظرکی عکسبندی کیلئے درکار سامان (Props) میں شامل ہوگی جسے گُل کو پکڑا دیا گیا ہوگا ورنہ میں نے اسکرپٹ میں واضح کیا تھا کہ گُل اردو ادب سے شُغف رکھتی ہے تو اس کے کمرے میں پروین شاکر، سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی جیسی ہستیوں کی کتابیں رکھی دکھائی جائیں۔
ڈرامے کی کہانی میں پروڈکشن ہاؤسزکی جانب سے اپنی مرضی کے ردوبدل کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر نزہت نے کہا کہ بلاشبہ یہ ہوتا ہے لیکن رائٹرکی اجازت کے بغیر کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جاتی۔ ون لائنر دیکھنے کے بعد پروڈکشن ہاؤس والے اس میں ممکنہ ریٹنگ کو مدنظررکھتے ہوئے تبدیلیاں کرواتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈرامہ سیریل ’بےپناہ‘ میں میرے لکھے گئے اسکرپٹ پربہت زیادہ عمل نہیں کیا گیا لیکن اس میں ڈائریکٹرکا زیادہ قصورنہیں کیونکہ شوٹ شروع ہوتے ہی ڈرامہ آن ائرجانے کی تاریخ بتادی گئی تھی تو دن بھر شوٹنگ اور پھرایڈیٹنگ کرنے کے بعد ایسا ہو ہی جاتا ہے۔ انہوں نے محتاط الفاظ میں ڈرامے کی کاسٹ پربھی تحفظات کا اظہارکیا ۔
یہ ڈرامہ ہفتے کے ساتوں روز نشرکیا جاتا ہے، رائٹر کے مطابق انہوں نے کُل 70 اقساط تحریرکی ہیں لیکن شوٹنگ کے بعد اقساط بڑھ بھی جاتی ہیں تو ممکنہ طور پر یہ زیادہ ہوں گی۔
ہٹلرمقبولیت دے گیا
یہی سوال ڈرامے کے ڈائریکٹر کامران اکبرخان کے سامنے بھی رکھا گیا جن کا کہنا تھا کہ ’ ڈرامے کی 70 اقساط نے ہمیں اتنی مقبولیت نہیں دی جتنی کہ ہٹلر دے گیا’۔
بذلہ سنجی کا مظاہرہ کرنےوالے ڈائریکٹرنے کہا کہ ایسا غلطی سے ہوا ہمیں وہ کتاب دکھانی بھی نہیں تھی لیکن بس ایسا ہوگیا اور ڈرامے کی مقبولیت بھی بڑھ گئی۔
اپنے اختتام کی جانب بڑھتا یہ ڈرامہ کُل 79 اقساط پرمشتمل ہے۔
ہٹلرکی Mein Kampf میں ایسا کیا ہے
دوسری جنگ عظیم ( 1945 ) میں نازی جرمنی کی شکست کے بعد ہٹلرکی اس کتاب کی اشاعت پر 70 سال کے لیے پابندی عائد کردی گئی تھی لیکن 2016 میں سات عشروں بعد یہ ایک بارپھر بیسٹ سیلر بن گئی۔
ہٹلر نے یہ کتاب 1925 میں لکھی تھی جو دہائی بعد اقتدارمیں آنے پرنازیوں کی اہم ترین کتاب بن گئی جس کی ایک کروڑ 20 لاکھ کاپیاں شائع کی گئیں۔
کتاب میں ہٹلرنے نازی سیاسی فلسفے کی تشریح کرتے ہوئے جرمنی کو عظیم ترین بنانے کا منصوبہ بیان کیا ہے۔
مائن کامف کے کاپی رائٹس یا ہٹلر کی موت کے 70 سال بعد 2015 میں ختم ہوگئے تھے۔
اسے جرمنی کے شہر میونخ میں قائم معاصر تاریخ کے ادارے IFZ کی جانب سے 2016 میں دوبارہ شائع کیا گیا لیکن نئے ایڈیشن کو ’ہٹلر مائن کامف: آکریٹکل ایڈیشن‘ کا نام دیتے ہوئےتحریر کی ناقدانہ تشریح بھی کی گئی ہے تا کہ لوگ اسےبہترانداز میں سمجھ سکیں۔
Comments are closed on this story.