الزامات اور پھر معافی۔۔۔ ’’یو ٹرن تو اچھے ہوتے ہیں“
عمران خان کے بیانات، بھرپور مہم اور پھر حسب روایت یو ٹرن ۔۔۔ ہر دیے جانے والے بیان کے بعد مکرنا اور مکر کر انجان بننا۔۔۔ عمران خان کا معمول ہے۔ بقول عمران خان یو ٹرن نہ لینے والا کبھی کامیاب لیڈر نہیں ہوتا اور نپولین اورہٹلر نے یو ٹرن نہ لے کر شکست کھائی۔ پہلے عمران خان اگر اپنے کسی بیان یا الزام سے پیچھے ہٹتے تھے تو وہ اس دن کی سب سے بڑی خبر بن جاتی تھی، لیکن اب روز روز یو ٹرن لے کر عمران خان نے وہ حیثیت ہی کھو دی ہے، کیونکہ اب تو ان کے پرانے بیانات دکھانے والے بھی شرمندہ شرمندہ ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
عمران خان سیاسی فائدے کے لیے اپنی ہی کہی ہوئی بات پر یو ٹرن لینے میں نہ صرف مہارت رکھتے ہیں بلکہ اس کا اتنی خوبصورتی سے دفاع کرتے ہیں کہ دیکھنے اور سننے والے بھی دنگ رہ جاتے ہیں۔ اس کا کریڈٹ عمران خان کی سوشل میڈیا ٹیم کو جاتا ہے کہ وہ اپنا بیانیہ چاہے ’’یو ٹرن‘‘ پر ہی مبنی کیوں نہ ہو، منوانے میں اتنے کامیاب ہیں کہ مخالف جماعتیں درست سمت میں ہوتے ہوئے بھی اس کا مقابلہ نہیں کرپاتیں۔
عمران خان پہلے الزام لگاتے ہیں، پھر اسے لے کر مہم کے طورپر چل پڑتے ہیں۔ ایک دنیا کو اپنا ہمنوا بنالیتے ہیں۔۔۔ لیکن آخر میں بس اتنا ہی کہہ کر جان چھڑالیتے ہیں کہ یہ تو سیاسی بیان تھا۔۔۔ بعض اوقات تو اپنا ”بڑاپن“ ثابت کرنے کے لیے معافی مانگ کر ہیرو بھی بن جاتے ہیں۔ جیسے کہ عمران خان نے اسلام آباد میں جلسے کے دوران خاتون جج زیبا چوہدری کو دھمکی دی اور پھر ’’ریڈ لائن‘’کراس کرنے کے احساس کے بعدمعافی مانگنے ان کی عدالت پہنچ گئے۔ 2017ء میں بھی معافی مانگنے کے بعد عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی ختم کی گئی تھی۔ انہوں نے غیر ملکی فنڈنگ کے مقدمے میں ہونے والی کارروائی پر الیکشن کمیشن کو متعصب قرار دیا تھا۔
حکومت سے نکلنے کے بعد عمران خان الزام لگاتے رہے کہ ان کی حکومت گرانے میں مبینہ امریکی سازش کار فرما تھی اور امریکا کے خلاف پاکستان میں ایسی فضا بنادی تھی جو کسی زمانے میں مذہبی جماعتوں کا خاصا ہوا کرتی تھی۔۔۔ لیکن پھر فنانشل ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ وہ اب اپنے اقتدارکے خاتمے کا الزام امریکی انتظامیہ پر نہیں لگاتے اور دوبارہ منتخب ہونے پر ’’باوقار‘‘ تعلقات چاہتے ہیں۔ ان کے بقول ”جو ہوگیا، سو ہوگیا“ اور بہتر تعلقات کی خواہش پر ’’امریکی سازش‘‘ کے بیانیے سے بھی یو ٹرن لے لیا۔ عمران خان نے امریکہ مخالف بیانیہ اور اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ دونوں سے یو ٹرن لے کر سب کو حیران کردیا۔
عمران خان بطور وزیراعظم جنرل باجوہ کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔ ان کی نظر میں جنرل باجوہ ایک سُلجھی ہوئی شخصیت کے مالک جنرل تھے۔ ’’جمہوریت پسند‘‘ اور حکومت کی ہمیشہ مدد کرنے والے۔۔۔ لیکن اقتدار سے باہر آتے ہی ایسی بازی پلٹی کہ وہی جنرل باجوہ ’’نیوٹرل جانور‘‘ اور’’میر صادق‘’ اور ’’میر جعفر‘‘ بنادیے گئے۔ پھر آرمی چیف کو توسیع دینے کی تجویز بھی دی گئی اورتقرری کو متنازع بناکر نیا رنگ بھی دیا۔ جب سب چالیں ناکام گئیں تو کہا جنرل باجوہ خود توسیع چاہتے تھے۔ پہلے منفی پروپیگنڈہ ،پھر غداری کے سنگین الزامات اور اب اسی آرمی چیف(ر) پر ’’قتل کی سازش‘‘ کا نیاالزام۔ اور ان کی حکمتِ عملی اتنی کامیاب ہوئی کہ جنرل باجوہ دفاعی پوزیشن پر آگئے اور متعدد ذرائع سے ان کو اپنا موقف پیش کرنا پڑا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب عمران خان اس الزام سے کب پیچھے ہٹتے ہیں اور معافی مانگتے ہیں؟
یہی نہیں ماضی میں بھی عمران خان کا یہی وطیرہ رہا کہ ہر بیان سے یوٹرن لیا۔ جیسے 2015میں عمران خان نے اسمبلی کا بائیکاٹ کیا اور پھر آٹھ ماہ بعد اسی اسمبلی میں واپس لوٹے۔ 2016ء میں ایک طویل عرصے تک پارلیمنٹ کا از خودبائیکاٹ کیے رکھا اور پھر خود ہی اس کو ختم کردیا۔ پانامہ لیکس پر سپریم کورٹ کا ہر فیصلہ ماننے کا اعلان کیا اور پھر تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل پر اعتراض اور بائیکاٹ کر دیا۔ پانامہ لیکس کے معاملے پر ہی پہلے اسلام آباد بند کرنے کی کال دی اور پھر اسی کو یومِ تشکر میں تبدیل کردیا۔
حکومت میں آنے سے پہلے عمران خان نے وعدے کیے۔ عوام کو سہانے خواب دکھائے اور حکومت میں آتے ہی تمام وعدوں پر یو ٹرن لے لیا۔ جیسے کہا قرض نہیں لوں گا پھرسب نے دیکھا کہ جتنا قرض تحریک انصاف کی حکومت نے لیااس سے ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ سیاسی فائدے کے لیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی مخالفت سے حمایت کردی۔ آزاد امیدواروں کو پارٹی میں شامل نہ کرنے کا کہا، لیکن پھر حکومت بنانے کے لیے ان کو ہی جماعت میں شامل کیا۔ ہیلی کاپٹر کی بجائے سائیکل کے استعمال کی ترغیب دی، لیکن اس پر عمل تو درکنار سب سے زیادہ فائدہ حاصل کیا اور اس کے لیے قانون میں تبدیلی تک لائی گئی۔
ایسا بدلا ہوں تیرے شہر کا پانی پی کر جھوٹ بولوں تو ندامت نہیں ہوتی مجھ کو
اور اب حال ہی میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان بھی عمران خان کے لیے ایک امتحان بن گیا۔ کبھی اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کرتے ہیں اور وارننگ دیتے ہیں اور پھر اپنے ہی بیان سے مُکر جاتے ہیں۔ اور یہی پی ٹی آئی اور ق لیگ میں دراڑ کی وجہ بھی بن سکتی ہے کیونکہ منظورِ نظر حلقے ہرگز نہیں چاہتے کہ وقت سے پہلے اسمبلیاں تحلیل ہوں۔ لیکن پرویز الٰہی ہرگز پریشان نہیں ۔ کیونکہ وہ عمران خان کی سیاست کو سمجھتے ہیں۔ شاید وہ جانتے ہیں کہ عمران خان کے کسی بیان کو زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ اور شاید یہی ان کے اطمینان کی بنیادی وجہ ہے۔ اور اسی وجہ سے کہیں سے یہ نظر نہیں آتا کہ اسمبلیاں تحلیل ہوسکیں گی یا نہیں
Comments are closed on this story.