Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

خیبرپختونخوا کی جیلوں میں موجود قیدیوں میں ایڈز اور ہیپاٹائٹس کا انکشاف

سب سے زیادہ 138 قیدی ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہیں۔ اس کے بعد 29 قیدی ہیپاٹائٹس بی، 25 قیدی ایڈز اور 4 قیدی ٹی بی میں مبتلا ہیں۔
شائع 02 جنوری 2023 09:56pm
AIDS and hepatitis cases spread in prisons of KP | Aaj News

خیبرپختونخوا کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی رکھنے کی وجہ سے درجنوں قیدی کے ایڈز سمیت کئی متعدی بیماریوں میں مبتلا ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

معلومات تک رسائی حاصل کرنے کے قانون خیبرپختونخوا رائٹ ٹو انفارمشن ایکٹ 2013 کے تحت محکمہ جیل خانہ جات سے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق خیبرپختوںخوا کی مختلف جیلوں میں 196 قیدی ٹی بی، ہیپاٹائٹس بی، ہیپاٹائٹس سی اور ایڈز میں مبتلا ہیں۔

محکمہ جیل خانہ جات کے دستاویز کے مطابق سب سے زیادہ 138 قیدی ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہیں۔ اس کے بعد 29 قیدی ہیپاٹائٹس بی، 25 قیدی ایڈز اور 4 قیدی ٹی بی میں مبتلا ہیں۔

سب سے زیادہ بیمار قیدی پشاور سنٹرل جیل میں ہیں جہاں 34 ہیپاٹائٹس سی، 7 ہیپاٹائٹس بی اور 6 ایڈز کے مریض موجود ہیں۔

دوسری جانب جیلوں میں موجود ہسپتالوں اور طبی مراکز میں سہولیات کا بھی فقدان ہے۔

 تصویر بزریعہ کامران علی، نمائندہ آج نیوز پشاور
تصویر بزریعہ کامران علی، نمائندہ آج نیوز پشاور

دستاویز کے مطابق بنوں سنٹرل جیل میں 9، ڈسٹرکٹ جیل لکی مروت میں 12، سب جیل نوشہرہ میں 8، سب جیل صوابی میں 13، سب جیل چارسدہ میں 12 اور سب جیل ملاکنڈ میں 4 قیدی متعدی بیماریوں میں مبتلا ہیں لیکن ان جیلوں میں کوئی طبی سہولیات میسر نہیں۔

ان میں سے ایک کہانی پشاور کے علاقہ سربند کے رہائشی ٹیکسی ڈرائیور 28 سالہ محمد حیات کی ہے جنہیں سات قبل منشیات کیس میں 25 سال قید کی سزا ہوئی لیکن جیل میں دوران قید وہ ایڈز اور ہیپاٹائٹس کا شکار بنے اور اسی سے سال 2020 میں ان کی موت واقع ہوئی۔

ظہور آفریدی نے اپنے چچا زاد بھائی محمد حیات کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ حیات جب جیل گئے تو بالکل صحت مند تھے لیکن جیلوں میں جگہ کم ہونے، شولڈر ٹو شولڈر سونے اور ایک بیرک میں زیادہ قریب رہنے کی وجہ سے کسی قیدی سے وہ بھی متعدی بیماری کا شکار بنے اور پھر جیل میں مناسب علاج نہ ملنے کی وجہ سے وہ جان کی بازی ہار گئے۔

 تصویر بزریعہ کامران علی، نمائندہ آج نیوز پشاور
تصویر بزریعہ کامران علی، نمائندہ آج نیوز پشاور

ظہور نے ناامیدی کے ساتھ جواب دیا کہ غریب لوگ دعا کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔

کچھ ایسی ہی کہانی پشاور سنٹرل جیل میں قتل کے مقدمے میں قید اور ہیپاٹائٹس میں مبتلا شمشاد خان (فرضی نام) نے بھی بتائی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب انہیں جیل منتقل کیا گیا تو داخلے پر طبی معائنہ کیا گیا لیکن بعد میں ان کا کوئی معائنہ نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ طبعیت خراب ہونے اور علامات ظاہر ہونے پر انہوں نے انتظامیہ کو آگاہ کیا جس کے بعد ان کا دوبارہ معائنہ کیا گیا اور ٹیسٹ مثبت آیا۔

شمشاد نے کہا کہ اگر کسی کو کوئی بیماری ہو تو معائنہ یا علاج خود بخود نہیں کیا جاتا بلکہ قیدی کو رپورٹ کرنا پڑتا ہے۔

شمشاد کا کہنا تھا کہ جیلوں کے ہسپتالوں میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ باہر کے سرکاری ہسپتالوں میں منتقلی پر بھی وقت لگتا ہے اور اسی دوران بیمار قیدی کی صحت مزید بگڑ سکتی ہے۔

جیل انتظامیہ نے بھی شمشاد کی بات کی تصدیق کی ۔

ایڈووکیٹ احسان اللہ جان کا کہنا ہے کہ قیدیوں کے بارے میں ایک بنیادی مفروضہ ہے کہ جو لوگ حراست میں ہیں یا قید ہیں ان کے کوئی حقوق نہیں، حالانکہ ایسا ہرگز ہی نہیں کیونکہ قیدیوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں جس حوالے سے سول اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی معاہدے کے آرٹیکل 10 میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ قیدیوں کے ساتھ بھی انسانیت اور وقار و احترام کا سلوک کیا جائے۔

احسان اللہ نے بتایا کہ دشمن کے کیمپوں سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کیلئے بھی صحت کے حقوق ہیں کیونکہ جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 13 میں کہا گیا ہے کہ قیدیوں کو اذیت دینا طے شدہ قانونی اصولوں کے خلاف ہے، جبکہ آرٹیکل 15 قیدیوں کی طبی ضروریات کو پوری کرنا کی تلقین کرتا ہے۔

اسی طرح آرٹیکل 30، 31 اور 32 اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قیدیوں کی صحت کا ہر حال میں تحفظ یقینی بنایا جائے۔

رائٹ ٹو انفارمشن ایکٹ (آر ٹی آئی) کے تحت حاصل کردہ معلومات کے طابق خیبرپختونخوا کے کل 6 سنٹرل، 8 ڈسٹرکٹ اور 24 سب جیلوں میں مجموعی طور پر 13 ہزار 76 قیدیوں کی گنجائش ہے، جس میں 12 ہزار 621 مرد اور 455 خواتین قیدیوں کی گنجائش شامل ہیں، تاہم جیلوں میں اس وقت 14 ہزار 321 قیدی موجود ہیں۔

جیلوں میں موجود قیدیوں میں 13 ہزار 772 مرد، 181 خواتین جبکہ 364 کم عمر بچے اور 4 کم عمر بچیاں شامل ہیں۔

 تصویر بزریعہ کامران علی، نمائندہ آج نیوز پشاور
تصویر بزریعہ کامران علی، نمائندہ آج نیوز پشاور

دستاویز کے مطابق صرف 2 ہزار 897 قیدیوں کو عدالتوں سے سزائیں سنائی گئی ہیں جبکہ 11 ہزار 424 قیدی (انڈر ٹرائل) تاحال کیسز میں فیصلوں کے منتظر ہیں جسکا تناسب 79 فیصد بنتا ہے۔

پشاور ہائیکورٹ کے وکیل عبدالوہاب ترکلانی کا مؤقف ہے کہ جیلوں کے چار بڑے مقاصد ہیں جس میں انتقام یا بدلہ، نااہلی، روک تھام اور بحالی شامل ہیں۔

عبدالوہاب کے مطابق انتقام کا مطلب معاشرے کے خلاف جرائم کی سزا ہے جس میں مجرموں کو ان کی آزادی سے محروم کیا جاتا ہے جو معاشرے کا قرض ادا کرنے کا ایک طریقہ ہے۔

نااہلی کا مطلب ہے کہ معاشرے سے مجرموں کو نکال دینا ہے تاکہ معصوم لوگوں کو مزید نقصان سے بچایا جاسکے۔

روک تھام کا مطلب یہ ہے کہ مجرموں کے جیل میں جانے سے باقی لوگ قانون شکنی سے رک جائیں اور بحالی سے مراد ہے کہ مجرم کو قانون کی پابندی کرنے والے شہری میں تبدیل کرنا ہے۔

 تصویر بزریعہ کامران علی، نمائندہ آج نیوز پشاور
تصویر بزریعہ کامران علی، نمائندہ آج نیوز پشاور

عبدالوہاب کا ماننا ہے کہ جیلوں کے مقاصد کے برعکس ہمارے جیلوں میں مسائل زیادہ اور سہولیات اور مثبت سرگرمیوں کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے جرائم میں آئے روز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے سوشل ویلفئیر ونگ کے چیئرمین اور خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں بطور میڈیکل سپیشلسٹ کام کرنے والے ڈاکٹر شمس وزیر کے مطابق متعدی بیماریاں عام طور پر بیکٹیریا، وائرس یا دیگر جراثیم کی براہ راست ایک شخص سے دوسرے میں منتقلی کے ذریعے پھیلتی ہیں۔

یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب بیکٹیریا یا وائرس سے متاثرہ فرد کسی ایسے شخص کو چھوتا، بوسہ دیتا، کھانستا یا چھینکتا ہے جو متاثرہ نہیں ہے۔

ڈاکٹر شمس وزیر نے بتایا کہ یہ جراثیم جنسی رابطے سے جسمانی رطوبتوں کے تبادلے کے ذریعے بھی پھیل سکتے ہیں۔

جراثیم سے گزرنے والے شخص میں بیماری کی کوئی علامت نہیں ہو سکتی ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ صرف ایک کیریئر ہو۔

طبی ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ بہت سے جراثیم کسی بے جان چیز پر ٹھہر سکتے ہیں جس میں ٹیبل، ڈور ناب یا ہینڈل وغیرہ شامل ہیں۔ مثال کے طور پر جب کوئی شخص نزلہ زکام سے بیمار شخص کے ہاتھ میں رکھے ہوئے دروازے کی دستک کو چھوتا ہے، تو آپ اس کے پیچھے چھوڑے گئے جراثیم کو اٹھا سکتے ہیں۔ اگر آپ ہاتھ دھونے سے پہلے اپنی آنکھوں، منہ یا ناک کو چھوتے ہیں تو آپ کو انفیکشن ہو سکتا ہے۔

اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے لیکچرر رئیس گل نے خیبرپختونخوا کے جیلوں میں گنجائش سے زائد قیدیوں پر ریسرچ میں لکھا ہے کہ گنجائش سے زائد قیدی رکھنے کی وجہ سے دائمی بیماریوں کا پھیلاؤ، غیر صحت بخش ماحول، چیک اینڈ بیلنس کی کمی، جیلوں میں فسادات، قیدیوں کی غیر درجہ بندی جیسے مسائل جنم لیتی ہیں۔

انہوں نے نشاندہی کی ہے کہ انصاف میں تاخیر ہی جیلوں میں گنجائش سے زائد قیدیوں کی وجہ ہے۔

قیدیوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے وکیل امان اللہ پیرزادہ کا کہنا ہے کہ جیلوں میں قیدیوں کے حقوق کیلئے قوانین ہیں لیکن ان قوانین پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا، جس وجہ سے قیدی حقوق سے محروم ہیں۔

امان پیرزادہ نے بتایا کہ خیبرپختونخوا پریزنز رول 2018 کے رول 18 میں واضح طور پر ہدایت ہے کہ ہر قیدی کو جیل میں لانے کے 24 گھنٹے کے اندر میڈیکل اسکریننگ لازمی ہے اور اگر کوئی قیدی متعدی بیماری کا شکار ہو تو اس قیدی کو ایک علیحدہ سیل میں بند کر دیا جائے گا، تاہم یہ سہولت اکثر جیلوں میں دستیاب نہیں ہے۔

امان پیرزادہ کا کہنا تھا کہ اسی طرح رول 760 کے مطابق کسی جیل میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کو نہیں رکھا جاسکتا، لیکن بدقسمتی سے جیلوں میں گنجائش سے زیادہ موجود ہیں جس کی وجہ سے قیدیوں میں کئی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

امان پیرزادہ نے کہا کہ رولز کے مطابق صحت مند قیدی اپنی مرضی سے دوران قید تین مرتبہ خون عطیہ کرسکتے ہیں جس کے بدلے قیدی کو ہر بار 30 دن کی معافی ملتی ہے جس سے نہ صرف قیدیوں کی جلد رہائی کے باعث جیلوں پر بوجھ کم ہوسکتا ہے بلکہ خون کے ضرورت مند مریضوں کو بھی سہارا ملے گا۔

 تصویر بزریعہ کامران علی، نمائندہ آج نیوز پشاور
تصویر بزریعہ کامران علی، نمائندہ آج نیوز پشاور

امان پیرزادہ نے بیماریوں میں مبتلا قیدیوں کو علیحدہ سیل میں رکھنے اور مرضی سے خون عطیہ کرنے والے قیدیوں کو معافی سے متعلق قوانین پر عملدرآمد کیلئے دو مختلف کیسز بھی دائر کئے تھے، تاہم عدالت نے کیس میں کسی متاثرہ قیدی کو درخواست گزار بنانے کیلئے دوبارہ دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

امان پیرزادہ نے بتایا کہ دونوں درخواستیں دوبارہ تیار کرکے جلد ہائیکورٹ میں دائر کریں گے۔

آئی جی جیل خانہ جات خیبرپختونخوا سعادت حسن کا مؤقف ہے کہ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کا مسئلہ پوری دنیا میں ہے لیکن اس مسئلہ پر قابو پانے کیلئے سنجیدہ اقدامات ناگزیر ہیں۔ اس لئے ضلع ہنگو میں ڈسٹرکٹ جیل کو جلد فعال کردیا جائے گا اور صوابی میں زیر تعمیر جیل کو جلد مکمل کیا جائے گا۔ جبکہ پشاور، ڈی آئی خان اور بنوں کے جیلوں میں اضافی بلاکس اور سیلز بنائے جارہے ہیں۔

انڈر ٹرائل قیدیوں سے متعلق آئی جی سعات حسن نے بتایا کہ کریمنل جسٹس کوآرڈینیشن کمیٹی میں معمولی نوعیت کے کیسز میں بند قیدیوں کا مسئلہ اٹھایا جارہا ہے اور وقتاً فوقتاً متعلقہ سیشن جج ان کے کیسز فوری سماعت کیلئے منظور کرکے جلد فیصلے کی ہدایت کرتے ہیں، لیکن قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے یہ مسئلہ فوری حل نہیں ہوسکتا۔

سعادت حسن نے صحت کے مسائل کے حوالے سے کہا کہ تمام بیمار قیدیوں کی ہر دو ماہ بعد سکریننگ ہوتی ہے اور درکار طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہے لیکن زیادہ سنگین نوعیت کے بیمار قیدیوں کو جیل سے دیگر ہسپتالوں کو ریفر کیا جاتا ہے، تاہم وسائل کی کمی اور گنجائش سے زیادہ قیدی رکھنے کی وجہ سے مسائل درپیش ہیں، لیکن اس پر قابو پانے کیلئے قانون میں ترامیم کے ساتھ ساتھ محکمے کے صلاحیت اور استداد کو بڑھا رہے ہیں۔

خیبرپختونخوا کے ایڈز اور ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر اصغر خان نے بتایا کہ محکمہ جیل خانہ جات کا اپنا نظام صحت موجود ہے مگر اکثر عملے کی کمی کی وجہ سے محکمہ صحت عملہ فراہم کرتا ہے، جبکہ محکمہ صحت کے ساتھ علاج کے سلسلے میں تعاون کیلئے بھی وقتاً فوقتاً رابطہ کیا جاتا ہے، اس لئے پروگرام کے تحت قیدیوں میں تشخیص کیلئے سکریننگ کی جاتی ہے اور بیماری میں مبتلا قیدیوں کو پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال یا پولیس سروسز ہسپتال ریفر کیا جاتا ہے جہاں انہیں بالکل مفت علاج کی فراہمی ہوتی ہے۔

قانونی ماہر عظمیٰ ستار کا کہنا ہے کہ جرائم میں اضافہ اور انصاف میں تاخیر کی وجہ سے جیلوں میں گنجائش کم پڑ رہی ہے جس کی وجہ سے بیماریاں پھیلنے کے ساتھ قیدیوں کو سونے کیلئے جگہ اور باتھ رومز کی کمی کا بھی سامنا ہے جو نہ صرف قیدیوں بلکہ جیل انتظامیہ کیلئے بھی درد سر بنتا جارہا ہے۔ اس لئے جیلوں میں سازگار ماحول کی فراہمی سے جہاں جرائم کے عادی مجرموں کی اصلاح میں آسانی ہوگی تو وہیں قیدیوں کے مسائل بھی کم ہوسکتے ہیں۔

سینئر قانون دان سیف اللہ محب کاکا خیل نے بتایا کہ اکثر قیدیوں کو حقوق کے بارے میں علم نہیں ہوتا جبکہ ہپیاٹائٹس اور ایڈز کی بیماری میں مبتلا قیدیوں کو صحت کی بنیاد پر ضمانت نہیں مل سکتی کیونکہ ان بیماریوں کا علاج ہسپتالوں میں ممکن ہے۔

سیف اللہ نے نشاندہی کی کہ ہیپاٹائٹس اور ایڈز میں مبتلا قیدیوں کی تعداد دوگنا ہوسکتی ہے، تاہم معاشرے میں لوگوں کے رویے کی وجہ سے عام شہریوں کی طرح اکثر قیدی بھی ہیپاٹائٹس اور خاص طور پر ایڈز کے تشخیصی ٹیسٹ سے کتراتے ہیں اور علامات ہونے کے باوجود بھی وہ انتظامیہ کو آگاہ نہیں کرتے جس وجہ سے مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔

ایک طرف جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کے رکھنے کا مسئلہ درپیش ہے اور قیدی متعدی بیماریوں کا شکار بنتے جارہے ہیں تو دوسری جانب فنڈز کی بھی کمی کا سامنا ہے۔

خیبرپختونخوا اسمبلی ویب سائٹ سے حاصل کردہ رواں مالی سال بجٹ دستاویز کے مطابق خیبرپختونخوا کی جیلوں کیلئے مجموعی طور پر 3 ارب 79 کروڑ 59 لاکھ 11 ہزار روپے مختص کئے گئے ہیں جس کو اگر موجودہ قیدیوں کی تعداد (14 ہزار321) پر سالانہ کے حساب سے تقسیم کیا جائے تو ایک قیدی کیلئے سالانہ 2 لاکھ 65 ہزار 59 روپے اور روزانہ کے حساب سے ایک قیدی کیلئے 726 روپے مختص کئے گئے ہیں۔

 تصویر بزریعہ کامران علی، نمائندہ آج نیوز پشاور
تصویر بزریعہ کامران علی، نمائندہ آج نیوز پشاور

لیکن اس تین ارب سے زائد رقم میں محکمہ جیل خانہ جات کے افسران اور ملازمین کی تنخواہیں، الاؤنسز اور ٹریننگز بھی شامل ہیں جبکہ ٹرانسپورٹ، بجلی، پانی اور گیس کے بلز بھی اسی بجٹ کا حصہ ہے۔ اسی طرح قیدیوں کا کھانا پینا، فرنیچر سمیت محکمے کے دیگر ضروریات بھی اسی مختص بجٹ سے ہی پورے کئے جاتے ہیں۔

وزیر خزانہ خیبرپختونخوا کے ترجمان عطاء اللہ خان نے بتایا کہ فنڈز میں کمی ہوسکتی ہے لیکن محکمہ خزانہ تمام اخراجات اور تفصیلات کو مد نظر رکھ کر سالانہ بجٹ اور فنڈ کا تعین کرتا ہے جبکہ آئندہ مالی سال بجٹ کیلئے نہ صرف محکمہ جیل خانہ جات کے گزشتہ سال کے اخراجات اور اشیاء کی موجودہ قیمتوں کو مد نظر رکھا جائے گا بلکہ محکمہ جیل خانہ جات کی جانب سے بجٹ ڈیمانڈ پر بھی غور ہوگا تاکہ فنڈز میں کمی کو پورا کیا جاسکے۔

ساؤتھ افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا نے ایک بار کہا تھا کہ ایک ملک اپنے قیدیوں کے ساتھ جو سلوک کرتا ہے وہ اس کی اقدار کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔ نیلسن منڈیلا نے 27 سال قید میں گزارے تھے۔

HIV

AIDS

KPK Prisons

Hepatitis A,B & C