Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

خیبرپختونخوا میں لاکھوں مکھیاں مرنے سے 8 اقسام کا شہد ناپید

سیلاب اور جنگلات کی کٹائی سے شہد کی پیداوار میں 40 فیصد کمی آ چکی ہے
شائع 26 دسمبر 2022 01:47pm
خیبرپختونخوا کا شہد کی پیداوار میں ایک بڑا حصہ ہے۔
خیبرپختونخوا کا شہد کی پیداوار میں ایک بڑا حصہ ہے۔
خیبرپختونخوا کا شہد کی پیداوار میں ایک بڑا حصہ ہے۔
خیبرپختونخوا کا شہد کی پیداوار میں ایک بڑا حصہ ہے۔

ٹی وی چینلز کے مارننگ شوز اور یوٹیوب کی ویڈیوز میں شہد کی افادیت پر جتنا زور دیا جاتا ہے اور لوگ طب نبوی ﷺ میں اس کی اہمیت کا جتنا ذکر دیتے ہیں اس حساب سے پاکستانی عوام کو اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ وطن عزیز میں شہد کی مکھیوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ حالیہ سیلاب میں مگس بانی کے 400 سے زائد فارم بہہ گئے اور لاکھوں کی تعداد میں مکھیاں مر گئیں۔ خیبرپختون میں شہد کی پیداوار 40 فیصد گر چکی ہے۔

آج نیوز کے کامران علی نے خیبرپختونخوا کے مگس بانوں کے حالات دیکھے ہیں جو ہمارے مستقبل کی جھلک دکھلا رہے ہیں۔


”حالات دیکھ کر لگ رہا ہے کہ چند سالوں بعد کوئی مگس بان رہے گا نہ ہی کوئی شہد کا کام کرے گا“، یہ الفاظ پشاور کے علاقہ دلہ زاک روڈ کے رہائشی 38 سال سفیر اللہ کے ہیں۔

سفیر اللہ گزشتہ 25 سال سے مگس بانی سے وابستہ ہیں تاہم حالات کی وجہ سے اب وہ مگس بانی کے ساتھ ساتھ رکشتہ چلانے پر مجبور ہیں۔

موسمیات تبدیلی، حالیہ سیلاب، جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور پودوں اور فصل کو کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رکھنے کیلئے جان لیوا اور غیر معیاری ادویات (پیسٹی سائیڈ) کے استعمال کے باعث خیبرپختونخوا میں شہد کی پیداوار میں 40 سے 50 فیصد اور شہد کی مکھیوں کی تعداد میں 40 فیصد تک کمی آئی ہے۔

سفیر اللہ نے بتایا کہ چند سال قبل شہد کی مکھیوں کے ایک بکس سے وہ 25 سے 30 کلو شہد حاصل کرتے تھے اور اب اسکی مقدار 10 سے 15 کلو پر آگئی ہے جس کی وجہ سے انکا کاروبار بھی 50 فیصد متاثر ہوچکا ہے۔

لاکھوں مکھیاں مر گئیں

سفیر اللہ کے مطابق ایک بکس میں پانچ ہزار سے 10 ہزار تک شہد کی مکھیاں ہوتی ہیں اور انکے پاس اس وقت 200 بکس موجود ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پہلے انکے پاس 600 بکس تھے تاہم موسم اور آب ہوا میں تغیر کے ساتھ سیلاب کی وجہ سے ان سے لاکھوں کی تعداد مکھیاں مر گئی ہیں۔

سفیر اللہ کا کہنا تھا کہ شہد کی مکھیوں پر انتہائی زیادہ خرچہ آتا ہے کیونکہ موسم کے حساب سے مکھیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا پڑتا ہے لیکن منافع اب نہ ہونے کے برابر ہیں اس لئے بچوں کا پیٹھ پالنے کیلئے وہ رکشہ چلاتے ہیں جبکہ انکے دو بھائیوں نے تو مگس بانی کا کام مکمل طور پر چھوڑ دیا ہے۔

 مگس بان روزگار سے محروم ہو رہے ہیں
مگس بان روزگار سے محروم ہو رہے ہیں

پشاور کے علاقہ ترناب فارم سے تعلق رکھنے والے 50 سالہ مگس بان علی شاہ کا بھی کہنا ہے کہ جنگلات اور مگس بانی میں استعمال ہونیوالی ادویات کا شہد کی پیداوار میں اہم کردار ہے لیکن غیر معیاری ادویات کے ساتھ ساتھ جنگلات کی بے دریغ کٹائی جاری ہے جس کی وجہ سے شہد کا کاروبار زوال پذیر ہورہا ہے۔علی شاہ نے بتایا کہ انکے شہد کی مکھیوں کے فی بکس کی پیداوار 10 سے 15 کلو پر آگئی ہے۔

یہ کہانی صرف سفیر اللہ اور علی شاہ کی نہیں بلکہ بیشتر بی کیپرز(مگس بان) حالات سے متاثر ہورہے ہیں۔

آل پاکستان بی کیپرز، ٹریڈرز اور ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل شیر زمان مہمند نے بتایا کہ حالیہ سیلاب میں خیبر پختونخوا میں شہد کی مکھیوں کے 400 سے زائد فارم بہہ چکے ہیں جس میں کروڑوں مکھیاں مر گئی ہیں۔ شیر زمان کے مطابق پاکستان میں چھوٹی یا فلورہ، ڈومنا یا بڑی، سواتی یا پہاڑی مکھی اور یورپی مکھیاں تھی لیکن اب چھوٹی اور سواتی مکھیوں کی نسل ناپید ہوتی جارہی ہے۔

8 اقسام کا شہد نایاب

شیر زمان نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں بیرہ، پلوسہ،لاچی، شفتل، مالٹا سمیت 18 اقسام کے شہد کی پیداوار ہوا کرتی تھی لیکن اب نہ صرف 8 اقسام کا شہد نایاب ہے بلکہ بیرہ کی پیدوار میں 50 فیصد تک کمی آئی ہے جبکہ شفتل اور مالٹا شہد کی پیدوار نہ ہونے کے برابر ہے۔ شیر زمان سمجھتے ہیں کہ سیلاب، فلورہ والے درختوں کی کٹائی،موسمیاتی تبدیلی اور پیسٹی سائیڈ کے استعمال کی وجہ سے شہد کی پیدوار کے ساتھ ساتھ مکھیوں کی نسل میں کمی آئی ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔

زرعی یونیورسٹی پشاور کے پروفیسر ڈاکٹر انعام اللہ نے بتایا کہ شہد کی مکھیاں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث انتہائی متاثر ہوتی ہے کیونکہ شہد کی مکھیاں متعدل موسم پسند کرتی ہے اور موسم کی شدت کی وجہ سے مکھیوں کی پیداواری صلاحیت پر اثر پڑتا ہے اور بے وقت بارش، ہواؤں اور دیگر موسمی حالات کی وجہ سے شہد کی مکھیوں کی تعداد کیساتھ ساتھ نسل میں نمایاں کمی آئی ہے کیونکہ پھولوں کا زیرہ یا جرگ تیز بارش اور ہواؤں کی وجہ سے ضائع ہوتے ہیں۔

ریسرچ گیٹ پر موجود فرانسیسی ریسرچرز ماریہ نواجس اور لی کونٹی نے بھی ماحولیاتی تبدیلی کے شہد کی مکھیوں پر اثرات سے متعلق تحقیق میں لکھا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی شہد کی مکھیوں کو مختلف سطحوں پر متاثر کر سکتی ہے، اس کا شہد کی مکھیوں کے رویے اور فزیالوجی پر براہ راست اثر پڑ سکتا ہے اور یہ پھولوں کے ماحول کے معیار کو تبدیل کر سکتا ہے اور کالونی کی کٹائی کی صلاحیت اور ترقی کو بڑھا یا کم کر سکتا ہے۔

وفاق میں پاکستان تحریک انصاف حکومت نے شہد کی پیدوار میں اضافے کیلئے بلیٹن ٹری سونامی منصوبے کے فلورہ والے درخت لگانے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا لیکن بی کیپرز ایسوسی ایشن کے عہدیدار اس سے بھی مطمئن نہیں۔آل پاکستان ہنی بی کیپرز،ٹریڈرز اور ایکسپوٹرز ایسوسی ایشن کے سنیئر نائب صدر شیخ گل بادشاہ اور سیکرٹری جنرل شیر زمان نے بتایا کہ عملی طور پر ہنی پراجیکٹ کے کوئی اثرات نہیں کیونکہ ایسے کوئی درخت نہیں لگائے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایسے منصوبے تو سامنے لائے جاتے ہیں تاہم اس پر کوئی عملدرآمد نہیں کیا جاتا،اگر منصوبے پر عملدرآمد کیا جاتا ہے تو اس سے شہد کی پیداوار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

جعلی شہد سے بھی خطرہ

سفیر اللہ، علی شاہ سمیت دیگر بی کیپرز نے انکشاف کیا کہ مارکیٹ میں جعلی شہد کی فروخت جارہی ہے جس کے باعث بھی مگس بانی کا رجحان کم ہوتا جارہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فی کلو بیرہ شہد پر انکا 2 ہزار تک خرچہ آتا ہے جبکہ مارکیٹ میں 12 سو 2 ہزار روپے تک فی کلو بیرہ شہد کی فروخت جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری محکموں کے اہلکار جعلی شہد کی پیداوار میں ملوث ہیں جو بیرون ممالک بھی برآمد کیا جاتا ہے جس سے ملک کی بدنامی بھی ہورہی ہے۔

بی کیپرز نے مطالبہ کیا کہ اصل و جعلی شہد کی نشاندہی کیلئے مارکیٹوں میں نہ صرف لیبارٹریوں کا قیام عمل میں لایا جائے بلکہ فوڈ اتھارٹی ملوث افراد کیخلاف سخت کارروائی کرے۔

شہد کی برآمدات

شیخ گل بادشاہ اور شیر زمان نے بتایا کہ پاکستان سے سالانہ ہزاروں میٹرک ٹن شہد خیلجی ممالک جاتا ہے لیکن یورپی ممالک اور امریکہ کے مارکیٹوں تک پاکستانی ایکسپورٹرز کی رسائی نہیں کیونکہ یورپی ممالک کے لوگ سمجھتے ہیں کہ بی کیپنگ میں استعمال ادویات معیاری نہیں ہے۔

 پاکستانی شہد کی بیرون ملک بھی اچھی طلب تھی۔
پاکستانی شہد کی بیرون ملک بھی اچھی طلب تھی۔

ہنی بی کیپرز اور ٹریڈرز ایسوسی کیمطابق 15 سال قبل ملک میں شہد کی سالانہ پیداوار 30 ہزار میٹرک ٹن تک تھی جو 5 سال قبل 15 سے 20 ہزار میٹرک ٹن پر آگئی اور اب پیدوار 10 ہزار میٹرک ٹن سے بھی کم ہوگئی ہے اسلئے اب خلیجی ممالک کو بھی ڈیمانڈ کیمطابق شہد فراہم نہیں کیا جارہا جس کے باعث خلیجی ممالک کے لوگ بھی دیگر ممالک سے شہد منگوانے لگے ہیں جسکا پاکستان کی معیشت پر بھی برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

شیخ گل بادشاہ کے مطابق پاکستان میں شہد کے کاروبار سے 15 لاکھ لوگ وابستہ ہیں اور اگر حکومت اس کاروبار کی طرف توجہ دیں تو مزید 15 لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کیساتھ ساتھ ملکی معیشت میں بھی شہد کا شعبہ اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

سفیر اللہ، علی شاہ، گل بادشاہ، شیر زمان سمیت آل پاکستان ہنی بی کیپرز،ٹریڈز اور ایکسپورٹرز کے ہر عہدیدار اور رکن کا مطالبہ ہے کہ شہد کی پیداوار میں اضافہ اور شہد مکھیوں کی نسل کی حفاظت کیلئے موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اقدامات،جنگلات کی کٹائی کی روک تھام، بی کیپرز کی جدید تقاضوں کیمطابق تربیت اور بی کیپنگ میں استعمال ہونیوالی ادویات کی معیاری و آسان فراہمی ناگزیر ہیں۔