پاکستان چھوڑ کر جانے والے نوجوانوں کو قصوروار ٹھہرانا کیوں درست نہیں
- پاکستانی ہنرمند کارکن ملائیشیا اور جنوبی کوریا جاتے ہیں۔
- یورپی یونین کے ممالک روایتی طور پر افرادی قوت درآمد نہیں کرتے ہیں۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ ہنر مند/پیشہ ور پاکستانیوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔
حالیہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ سال 2022 میں 7 لاکھ 65 ہزار سے زائد پاکستانی ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر ”برین ڈرین“ نے انٹرنیٹ پر ایک بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا اتنے لوگوں نے کیوں اُس ملک کو چھوڑنے کا انتخاب کیا جو ان کی جائے پیدائش ہے۔
”برین ڈرین“ ایک ایسا رجحان ہے جو عام طور پر پاکستان جیسے ممالک میں پایا جاتا ہے، جہاں پیشہ ور اور ہنر مند افراد بہتر امکانات یا محفوظ ماحول کے لیے اپنے ملک کو چھوڑنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی صلاحیتوں کو کسی دوسرے ملک لے جاتے ہیں، جس کا واضح مطلب ملکی ترقی، معیشت اور انسانی سرمائے کا خسارہ ہے۔
1970 کی دہائی سے پہلے پاکستانی تارکین وطن کا اخراج مغربی ممالک خصوصاً برطانیہ کی طرف تھا: بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ
نوجوانوں میں خاص طور پر پاکستان چھوڑنے کی حمایت زیادہ نظر آتی ہے۔
نوجوان نسل پاکستان میں اپنے مستقبل کیلئے پریشان ہے جہاں تیزی سے زوال پذیر معیشت اور فرسودہ سماجی رویے پروان چڑھ رہے ہیں۔
اس کے برعکس، پرانی نسل نے وفاداری اور امید کی وجہ سے سے پاکستان میں ہی رہنے کا انتخاب کیا ہے۔ یہ دعویٰ کرنا غیر منصفانہ ہوگا کہ دونوں فریق غلط ہیں، لیکن یہ ان لوگوں کے لیے ایک مخمصہ پیش کرتا ہے جن کی پوری زندگی ابھی بھی ان کے آگے پڑی ہے۔
یہ مخمصہ اس وقت سر اٹھاتا ہے جب آپ جوان ہوتے ہیں اور آپ کو متضاد مشورے دیے جاتے ہیں۔
کچھ لوگ آپ کو کہتے ہیں کہ آپ اس ملک سے باہر نکلنے کے لیے جو کچھ بھی کر سکتے ہیں کریں (چاہے آپ کو غیر قانونی طریقے استعمال کرنا پڑیں)۔
دیگر اصرار کرتے ہیں کہ ہمارا ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکے گا جب تک اس کے اپنے نوجوان یہاں رہنے کا انتخاب نہیں کرتے اور اپنی صلاحیتوں کو یہاں کے لیے استعمال نہیں کرتے۔
یسریٰ صدیقی، جو کراچی یونیورسٹی میں دوسرے سال کی طالبہ تھیں کہتی ہیں، ”ایک طرف، میرے دادا تھے جنہوں نے ہم سب کو انگلش سکھائی اور گریجویشن کے بعد ملک چھوڑنے کی ترغیب دی۔ تو دوسری طرف میرے والدین ہیں جو سوچتے ہیں کہ ملک چھوڑنے کی کوشش ایک فریب ہے۔“
انہوں نے کہا کہ ”بیرون ملک جانے کا سوچتی ہوں تو مجھے برا بھی لگتا ہے، لیکن میں یہاں رہنا بھی نہیں چاہتی۔“
یہ ابہام ان نوجوانوں میں عام ہے جو حب الوطنی کے فرض کا احساس رکھتے ہیں، لیکن وہ اپنے لیے ایک بہتر یا مختلف زندگی چاہتے ہیں۔
ملک کو چھوڑ کر جانے کے خیالات جرم کا شدید احساس بھی پیدا کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ لوگ جو اپنی دھرتی کو چھوڑ کر جا چکے ہیں اکثر محسوس کرتے ہیں جیسے انہوں نے اپنے ملک اور لوگوں کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔
بیرون ملک جانے کا ارادہ رکھنے والی انگلش میجر کی طالبہ ماہم محمد اویس کا کہنا ہے کہ ”جب میں کالج سے فارغ التحصیل تھی، میں نے برطانیہ کی ایک یونیورسٹی میں درخواست دی اور ایک آفر لیٹر موصول ہوا۔ جب میں اپنی زندگی کے اس نئے مرحلے کو شروع کرنے کے لیے بہت پرجوش تھی، میرے ارد گرد موجود لوگوں نے مجھے کہا کہ میرا ملک ایک زیادہ ترقی یافتہ قوم بننے کی راہ پر گامزن ہے۔ امید کے اس غلط احساس کی بنیاد پر، میں نے پاکستان میں رکنے اور تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں تدریسی ہڑتالوں، غیر منصفانہ درجہ بندی اور تدریسی معیارات سے نمٹنے کے بعد اب محفوظ طریقے سے کہہ سکتی ہوں کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔“
عملی نقطہ نظر سے، حب الوطنی خالی پیٹ کو نہیں بھرتی اور نہ ہی شاید، وفاداری کا غلط احساس ایسا کرسکتا ہے۔ یہ بات خاص طور پر ان ہنر مند مزدوروں کے لیے درست ہے جن کے ساتھ پاکستان میں برا سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں کم معاوضہ دیا جاتا ہے، لیکن غیر ممالک میں انہیں انتہائی قیمتی سمجھا جاتا ہے۔
اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو ان لوگوں کے خلاف بولنے کا حق نہیں جو گھنٹوں جسمانی مشقت میں صرف کرتے ہیں لیکن اس کے عوض کچھ حاصل نہیں کرپاتے۔
ایک ملک جہاں ہنر پر ضرب لگائی جائے اس کے پھلنے پھولنے کے امکانا نہیں ہوتے، خاص طور پر پاکستان جیسے ملک کے لیے جو پہلے ہی STEM اور آرٹس کے شعبوں میں آگے بڑھنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
بہت سے انتہائی روشن سائنسی دماغ بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں، کوالیفائی کرتے ہیں اور وطن واپس نہیں لوٹتے۔ کیونکہ ان کے شعبے اتنے ترقی یافتہ ہیں کہ انہیں ملازمتیں یا ایسے ادارے نہیں ملتے جہاں وہ ترقی کر سکیں۔
وفاداری بہت اچھی چیز ہے، لیکن آپ کے پاس اسے نبھانے کی وجوہات نہیں تو۔۔۔
یہ بات چابت شدہ ہے کہ پاکستانی کس طرح وسائل کی کمی کے باوجود عظمت حاصل کرتے ہیں۔
اپنے لوگوں اور حکومت کا ردعمل ہمیں تشنہ چھوڑ دیتا ہے۔ فلم ”جوائے لینڈ“ کی مثال لے لیجئے، جس پر کئی مذہبی گروہوں نے پابندی لگا دی اور بائیکاٹ کیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ فلم آسکر نامزدگی کے راستے پر ہے۔
آرٹس کے طلباء ڈائریکٹر صائم صادق سے ہمدردی کا اظہار کریں گے۔ مائرہ پاشا، جو کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں تیسرے سال کی طالبہ اور ایک ابھرتی ہوئی میوزیکل آرٹسٹ ہیں، بہت سے مواقع کھو چکی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ میں بچپن سے ہی گانا چاہتی ہوں، یہ واحد خواب ہے جو میں نے دیکھا ہے اور میرے پاس ان خوابوں کو پورا کرنے کا ہنر بھی ہے۔ ”لیکن میری حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے، میرے آس پاس کے لوگوں نے مجھے یاد دلایا کہ میڈیا بری خواتین کے لیے ہے اور میں اپنے خاندان اور مذہب کو شرمندہ کر رہی ہوں گی۔ سالوں سے اس طرح کے حوصلہ شکن الفاظ سننے کے بعد، کیا کوئی مجھے قصور وار ٹھہرا سکتا ہے کہ اگر میں ملک چھوڑنا چاہتی ہوں؟“ ثقافتی برآمدات سے ملک کو ریونیو اور پہچان مل سکتی ہے۔ کوک سٹوڈیو پر علی سیٹھی کے ”پسوڑی“ کو لے لیں جو عالمی سطح پر مقبول ہوا، یا مرحوم نصرت فتح علی خان۔ ایک خاص طور پر متاثر کن مثال جنوبی کوریا کے گروپ BTS کی ہے، جس کا تخمینہ ہے کہ وہ اپنی معیشت کے لیے سالانہ 3.9 بلین ڈالرز کما رہا ہے۔
ایک بات واضح ہے کہ حالات نہ بدلے تو لوگ پاکستان چھوڑتے رہیں گے۔
مصنفہ کراچی یونیورسٹی میں دوسرے سال کی طالبہ ہیں جو انگریزی ادب اور لسانیات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
Comments are closed on this story.