پنجاب میں گورنر راج لگ سکتا ہے، وفاقی وزیر
سینئیر صحافی اور تجزیہ کار منیب فاروق نے انکشاف کیا ہے کہ ممکنہ طور پر گورنر پنجاب بلیغ الرحمان آج وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کو ڈی نوٹیفائی کردیں گے۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں میزبان عاصمہ شیرازی کے سوالات کا جواب سیتے ہوئے منیب فاروق نے کہا کہ سبطین خان کو درست قانونی رہنمائی نہیں دی گئی کیونکہ آرٹیکل 130 (7) کے تحت جو گورنر کا اختیار ہے وہ نوعیت میں باقی اختیارات سے بالکل مختلف ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آئین کا بڑا اوور رائیڈنگ (مداخلت کرکے بے اثر کرنے والا) اثر ہوتا ہے، کسی اسمبلی کے رولز آف بزنس یا قواعد کو سب آرڈینیٹ لیجسلیشن (ذیلی قانون سازی) کہا جاتا ہے، یہ چیزیں آئین کو اوور رائیڈ نہیں کرسکتیں بلکہ آئین انہیں اوور رائیڈ کر سکتا ہے۔
منیب فاروق کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اور وزیراعلیٰ پنجاب کو مشورے دینے والے وکلاء سے مایوسی ہوئی، سپریم کورٹ کا واضح فیصلہ 1994 کا موجود ہے۔ اس وقت پختونخوا میں پیر صابر شاہ کی حکومت تھی اور وفاق میں بینظیر کی حکومت تھی، اس وقت پیر صابر شاہ کو بھی گورنر نے کہا تھا کہ آپ اعتماد کا ووٹ لیجئے، جس پر انہوں نے اسپیکر کے ساتھ مل کر اسمبلی اجلاس 35 دن کیلئے ملتوی کردیا تھا۔ معاملہ جب عدالت میں گیا تو عدالت نے واضح کیا کہ جو اسپیکر نے کیا وہ غیر آئینی ہے یہ نہیں ہوسکتا اور گورنر کا اختیار اپنی جگہ موجود ہے، گورنر وزیراعلیٰ کو کہہ سکتا ہے کہ آپ اعتماد کا ووٹ لیں۔
انہوں نے کہا کہ مایوسی اس بات کی ہے کہ پی ٹی آئی اور وزیراعلیٰ پنجاب کو اتنے سینئیر وکلاء نے اتنی واضح بات کیوں نہیں بتائی۔
منیب فاروق کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں یہ معاملہ عدالتوں میں جائے گا اور عدالتیں اسے واپس پنجاب اسمبلی میں بھیج دیں گی، کیونکہ اسمبلی ہی وہ جگہ ہے جہاں واضح ہوسکتا ہے کہ آیا وزیراعلیٰ کے پاس اعتماد کا ووٹ ہے یا نہیں۔
’نوٹس تو وزیراعلیٰ کو بھیجا ہی نہیں گیا‘
اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کا کہنا تھا کہ گورنر نے نوٹس تو اسپیکر کے نام بھیجا ہے، وزیراعلیٰ پنجاب کو تو نوٹس بھیجا ہی نہیں گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس صورتِ حال میں پیر صابر شاہ کا کیس نہیں بلکہ 1997 میں لاہور ہائیکورٹ کا منظور وٹو کیس متعلقہ ہے، جس کے فیصلے میں لکھا گیا کہ نوٹس چیف منسٹر کو بھیجا ہی نہیں گیا۔ عدالت نے ردعمل کیلئے 10 روز کا وقت مقرر کیا تھا اور کہا تھا کہ اس کے بعد اعتماد کا ووٹ لیا جائے۔
’نئے اسمبلی اجلاس کی ضرورت نہیں‘
احمد اویس نے کہا کہ لہٰذا آرٹیکل 130 (7) کی شرائط پوری نہیں ہوتیں۔ اسپیکر نے جب کہا کہ پہلے سے جاری اجلاس میں ووٹنگ نہیں ہوسکتی تو اس وقت بھی سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اسی جاری اجلاس میں ووٹنگ ہوگی اور باقی تمام اقدامات غیر آئینی قرار دئے تھے۔
احمد اویس کی بات کے جواب میں وفاقی وزیر توانائی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خرم دستگیر نے کہا کہ اگر اعتماد کے ووٹ کیلئے اسمبلی اجلاس کا نیا سیشن بلانے کی بات ہوتی تو آئین میں ضرور لکھا ہوتا۔ جتنے بھی اجلاس طلب کئے جاتے ہیں وہ گورنر طلب کرتا ہے، ایک اجلاس انہوں نے پہلے ہی طلب کیا ہوا ہے تو اس میں بس ایک بیٹھک لگنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس قانونی معاملے پر بحث ہوسکتی ہے لیکن میرا ایک سیاسی سوال ہے کہ اگر اکثریت ہے تو دکھا کیوں نہیں دیتے؟ خیبر پختونخوا اسمبلی میں تو ایسی کوئی صورت حال نہیں ہے تو وہاں کیوں نہیں کر گزرتے۔
’اکثریت ہے تو دکھا کیوں نہیں دیتے‘
اکثریت دکھانے کے سوال پر احمد اویس نے کہا کہ پہلے عدم اعتماد کی تحریک پر کارروائی ہوگی، اعتماد کا ووٹ تو بعد میں مانگا گیا، اب پی ڈی ایم کو اپنے 186 ارکان دکھانے ہوں گے، جس پر عاصمہ نے کہا کہ ابھی تو ان کے پاس صرف 180 ارکان ہیں یعنی انہیں چھ لوگ اور لانے پڑیں گے۔
منیب فاروق کا کہنا تھا کہ گورنر کے خط کو آپ پڑھیں تو اس میں نیچے چیف سیکریٹری پنجاب اور وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری کا نام بھی موجود ہے۔ ظاہر ہے جب وزیراعلیٰ کو اعتماد کو ووٹ لینے کا کہا گیا ہے تو وہ تو پرویز الہٰی ہی ہیں۔
’کہہ دیا تو کہہ دیا‘
انہوں نے کہا کہ پہلے ہی بتا چکا ہوں اس معاملے میں گورنر کا اختیار دوسرے اختیارات سے مختلف ہے، باقی معاملوں میں گورنر مشاورت کرتا ہے لیکن اس معاملے میں وہ اپنے طریقے سے کام کرتا ہے۔
منیب فاروق نے مزید کہا کہ جس فیصلے کا میں نے حوالہ دیا اس میں اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سعد سعود جان صاحب نے ایک نوٹ بھی لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ گورنر کا یہاں جو اختیار ہے وہ ”ان کوالیفائیڈ“ (غیر مشروط) اختیار ہے ، اگر گورنر تنبیہہ کرتا ہے کہ آپ نے ووٹ آف کانفیڈنس لینا ہے تو پھر آپ نے لینا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نہ پی ڈی ایم کے پاس نمبر پورے ہیں اور نہ ہی حکومت کے پاس ، وہ اس لئے کہ ملتان سے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی نے تحفظات کا اظہار کیا کہ ہم اسمبلی توڑنا نہیں چاہتے اور چوہدری پرویز الہٰی خود کہہ چکے ہیں کہ 99 فیصد ارکان چاہتے ہی نہیں کہ اسمبلی ٹوٹے۔
پارٹی قیادت کے خلاف ووٹ دینے کے عدالتی فیصلے کے جواب میں خرم دستگیر نے کہا کہ پنجاب کی یہ حکومت ایک عدالتی تبدیلیِ ذہن کا اختراع ہے کہ عدالت نے کہا پارٹی قیادت کے خلاف دئے گئے ووٹ گنے نہیں جائیں گے۔
’ہم گورنر راج لگا دیں گے‘
انہوں نے کہا کہ اگر وزیراعلیٰ، گورنر کے 130 (7) کے حکم پر عملدرآمد نہ کریں اور پنجاب کی صورت حال قابو میں نہیں آئی تو پھر آئین کا 232 (1) آگے آئے گا جس کے تحت گورنر راج لگایا جائے گا، جس کیلئے اٹھارویں ترمیم کے تحت ہم قومی اسمبلی جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئینی طور پر گورنر راج انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے تو بہتر یہی ہے کہ کھلی فضا میں اعتماد کا ووٹ لے لیا جائے یا تحریک عدم اعتماد کی کارروائی کرلی جائے۔
جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ عدم اعتماد کی صورت میں انہیں اکثریت حاصل کرنی ہوگی، لیکن اگر اعتماد کے ووٹ کی طرف جاتے ہیں تو ایوان میں جتنے لوگ موجود ہوں گے ان کی اکثریت معنی رکھتی ہے۔
’گورنر ہاؤس میں کچھ تو بن رہا ہے‘
پروگرام کے آخر میں منیب فاروق نے عاصمہ کے سوال کہ کیا چوہدری پرویز الہیٰ کو ڈی نوٹیفائی کیا جاسکتا ہے؟ منیب کا کہنا تھا کہ جہاں تک میرا اندازہ ہے کچھ تو ڈرافٹ ہو رہا ہے اور وہ دستاویز جائے گا سول بیوروکریسی کے پاس، کیونکہ ڈی نوٹفکیشن بھی چیف سیکریٹری کے دفتر سے ہوتی ہے، اب یہ ان پر ہے کہ وہ کرتے ہیں یا نہیں کرتے، ممکن ہے وہ اس پر کوئی قانونی پیچیدگی لگا کر گورنر ہاؤس واپس بھیج دیں ، اس طرح معاملہ عدالت میں جاکر دوبارہ پنجاب اسمبلی میں آئے گا۔
Comments are closed on this story.