خیبر پختونخوا: گھریلو تشدد سے متاثرہ خواتین کی مدد کرتی ”بولو ہیلپ لائن“
گھریلو تشدد ایکٹ کے نفاذ کے بعد بولو ہیلپ لائن سنٹر کی معاونت سے گھریلو تشدد کی شکار خاتون کے کیس میں ملوث شخص کو تین سال قید اور جرمانہ کی سزا ملی۔
خیبر پختونخوا میں گزشتہ نو سالوں میں گھریلو تشدد سمیت 11 ایکٹس قابل عمل بنائے گئے۔ جن کا بنیادی مقصد وقار نسواں، خواتین کی عزت نفس کی تکریم، ان پر ہونے والے تشدد میں ملوث کرداروں کو قرار واقعی سزائیں دلوانا ہے۔
تاہم چیئرپرسن ویمن پارلیمانی کاکس ڈاکٹر سمیرا شمس کا کہنا ہے کہ گھریلوں تشدد قانون کو مزید کارآمد بنانے کے لئے رواں سال کے دوران صوبے کے چیف سیکرٹری کو تین بار خطوط ارسال کرچکے ہیں، کہ وقار نسواں ایکٹ میں مزید ترامیم اور اس کا دائر کار صوبے کے دیگر اضلاع تک پھیلنے کے طریقہ کار سے متعلق نکات کو صوبائی کابینہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیا جائے۔ تاہم ایک سال گزر جانے کے باوجود بھی ایسا نہ ہوسکا۔
لیکن دوسری جانب بولو ہیلپ لائن سنٹر سے انصاف ملنے والی ایک خاتوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ دس سال قبل ان کی شادی ہوئی جس کے بعد ان کے خاوند اور سسرالیوں کی جانب سے مسلسل اذیتوں اور مار پیٹ کا سامنا رہا۔
بولو سنٹر کے حکام کا کہنا ہے کہ متاثرہ خاتون نے رات گیارہ بجے فون کرکے بتایا کہ ان کی زندگی کو خاوند اور سسرال والوں سے خطرہ ہے جس پر کارروائی کرتے ہوئے بولو مدد گار سنٹر نے ایس ایس پی آپریشن پشاور کی مدد سے متاثرہ خاتون کو بچالیا۔
بعدازاں خاتون کو علاج معالجے کے لئے ہسپتال منتقل کردیا گیا، متاثرہ خاتون دو بچوں کی ماں ہے۔ شوہر گھر کے دیگر افراد سمیت ان پر تشدد کرتا رہا۔
متاثرہ خاتون پر ہونے والے تشدد کی رپورٹ درج ہونے کے بعد ملوث شخص کو گھریلو تشدد ایکٹ کے سیکشن 3 کے تحت تین سال قید اور جرمانے کی سزا ملی۔ سنٹر نے اس کیس کی پیروی کرتے ہوئے روازنہ اور پھر ہفتہ وار نگرانی کی۔ بعدازاں میاں بیوی نے باہمی رضا مندی ظاہر کرنے پر اب خاتون شوہر اور بچوں کے ساتھ پر لطف زندگی بسر کر رہی ہے۔
بولو مدد گار سنٹر پراجیکٹ ڈائریکٹر سحر خان کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین سالوں میں 1,021 کیسز میں متاثرہ خواتین کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا اور ان کی کاؤنسلنگ کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ کئی خواتین کے کیسز جو کہ صوبائی محتسب یا دیگر اداروں سے متعلق تھے، قانونی معاونت کے بعد وہاں بھیج دئے گئے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ گھروں ، دفاتر اور دیگر روزگار کی جگہوں پر خواتین کو بااختیار بنانے کے بارے میں آگاہی کے سلسلے میں 650 سے زائد سیمنارز، ورکشاپس منعقد کی گئیں۔ جبکہ تقریباً دو ہزار خواتین کو مختلف سروسز کی فراہمی اس کے علاوہ ہے۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے دستیاب اعداد وشمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں عصمت دری کے 390 ، غیرت کے نام پر قتل کے 119 جبکہ تیزاب گردی کے 3 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔
درج ذیل چار قوانین سمیت مجموعی طور پر 11 قوانین خیبر پختونخوا اسمبلی سے منظور ہوئے۔
Elimination of Custom of Ghag Act 2013
خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں بالخصوص اور صوبے کے دیگر حصوں میں بالعموم غگ رسم کی بیخ کنی کے لئے اس کا شکار ہونے والی خاتون اور ان کے اہل خانہ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر کوئی فرسودہ رسم کا مرتکب ٹہرا تو وہ غگ ایکٹ خیبر پختونخوا کی دفعہ چار اور پاکستان پینل کورٹ کی دفعہ 506 کے تحت سزا کا مستحق ہوگا۔
”غگ رسم“ کیا ہے ؟
اس رسم کے تحت اگر برادری کا کوئی شخص کسی خاتون سے شادی کا اعلان کرتا ہے تو برادری کا کوئی اور شخص اس خاتون کے لیے رشتہ نہیں بھجواتا اور اس خاتون کے لیے شادی کے رشتے آنا بند ہو جاتے ہیں۔ اس روایت کے تحت خاتون، اس کے والدین یا رشتہ داورں کی رضامندی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی تھی۔
خیبرپختونخوا کمیشن آن سٹیٹس آف وومن ایکٹ 2016
Enforcement of women property rights Act- 2019
ویمن پراپرٹی رائٹس ایکٹ کے تحت خواتین کو جائیداد کی ملکیت کا حق ہوگا اور یہ قانون خواتین کو اس حوالے سے ہراساں کرنے، دباؤ ڈالنے، فراڈ یا جبر اور اس طرح کے دیگر اقدامات کے ذریعے خلاف ورزی سے روکنے کو یقینی بناتا ہے۔
Protection of women against harassment at work place Act-2010
یہ قانون روزگار، کاروبار اور دیگر مقامات پر کام کرنے والی خواتین کو تحفظ کی فراہمی کے لئے منظور ہوا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت کام کرنے والی خواتین کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
پاکستانی آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت تمام شہری قانون کے سامنے برابر ہوں گے اور قانون کے مساوی تحفظ کے حقدار ہوں گے۔ اسی طرح آرٹیکل 25 کی شق (3) کے تحت صرف جنس کی بنیاد پر کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔
Work place یا کام کی جگہ
اس ایکٹ کے متن میں لکھا گیا ہے کہ کام کی جگہ یا وہ جگہ جہاں ایک تنظیم یا یومیہ مزدوری پر کوئی خاتون کام کرتی ہوں اور اس عمارت، کارخانہ علاقہ میں کوئی بھی ایسی صورتِ حال شامل ہے جو دفتر کے اوقات کار میں یا دفتر سے باہر سرکاری سرگرمی ہو۔
خیبرپختونخوا میں گزشتہ دس سالوں میں عورتوں کی جان و مال کے تحفظ کو فراہمی یقینی بنانے کے لئے یہ اقدامات کیے گئے ہیں۔
Comments are closed on this story.