Aaj News

منگل, نومبر 05, 2024  
02 Jumada Al-Awwal 1446  

صبا فیصل کا قصہ: کیا ساس کو معافی پر مجبور کرنا برصغیر کی بہو کا خاصا ہے

جھگڑے کے بعد آخر بیٹے کی ماں ہی غلطی کیوں مانے؟
شائع 18 دسمبر 2022 04:35pm

ہمارے ایک دوست ہیں۔ ان کی والدہ دو جوان اور اچھے عہدوں پر فائز بیٹوں کی ماں ہیں۔ ایک دن دو میں سے ایک بہو کے ساتھ ان بن ہوگئی۔ بیٹے سے چاہا کے بیوی اور ماں میں صلح کرا دے۔ اس کے خیال میں والدہ کچھ زیادہ بول گئی تھیں۔ خاتون خاصی سمجھدار ہیں، انہوں نے ایک سادہ سوال کیا، ”برسوں تمہارے ساتھ تھکنے کے بعد میں نے تمہاری پرورش کی تاکہ تم اچھی تعلیم حاصل کر سکو۔ ہر طرح کے حالات اور ظلم و ستم سہے۔ اب آخر عمر میں میں بہوؤں سے ڈر کر کیوں زندگی گزاروں۔ کیوں معافی مانگوں؟“

اس بات میں شبہ نہیں کہ پال پوس کر جوان کرنے کے احسان کی جذباتی دلیل ہر شادی شدہ بیٹے کی ماں دیتی ہے۔ لیکن سوال تو اپنی جگہ موجود ہے ’ماں ہی معافی کیوں مانگے؟‘ ادکارہ صبا فیصل نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں کہا ہے کہ بیٹے اور بہو کے ساتھ اختلافات کے بعد سوشل میڈیا پر ویڈیوز پوسٹ کرنا ان کی غلطی تھی۔

سینئر اداکارہ پہلے ہی وہ ویڈیوز ڈیلیٹ کر چکی ہیں۔ اپنے انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ بڑوں کو سمجھداری سے کام لینا چاہیے۔ شاید میں نے کچھ وقت کے لیے سمجھداری نہیں دکھائی، دونوں ویڈیوز اسی لیے ڈیلیٹ کیں کیونکہ مجھ سے نہیں دیکھی جارہی تھیں۔

صبا فیصل کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسی لیے کہا جاتا ہے غصہ حرام ہے، کہتے ہیں غصہ آئے تو سکون سے بیٹھیں، پانی پیئں، نازک مرحلہ تھا میرے لیے جس میں، میں نے وہ ویڈیو لگادی، مجھے نہیں لگانی چاہیے تھی۔

ٹی وی کی سینئر اداکارہ نے یہ بھی کہا کہ آئندہ وہ نجی معاملات سوشل میڈیا پر نہیں شیئر کریں گی۔

صبا فیصل سے نے یقینناً بڑے پن کا ثبوت دیا اور اس کے نتیجے میں ان کے گھر کا جھگڑا ختم ہوگیا لیکن سوال پھر وہی ہے کہ ماں ہی معافی کیوں مانگے۔

اپنے اردگرد نظر دوڑائیں آپ کو کتنے ہی گھروں میں وہ مائیں اس بہو سے معافیاں مانگتی دکھائی دیں گے جو وہ خود بیاہ کر لائی تھیں۔ کسی کو تھوڑی بہت رعایت ملتی ہے تو اتنی کہ معافی براہ راست بہو سے مانگنے کے بجائے بیٹے سے مانگ لیتی ہیں۔ اور اگر کوئی ماں معافی نہیں مانگتی تو اس کے خرانٹ اور ظالم ہونے کے چرچے پھیل جاتی ہیں۔

شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ ساس سے معافی منگوانے کی رویت برصغیر کی بہوؤں نے ہی ڈالی ہے اور سات سمندر پار جا کر بھی اس پر قائم رہتی ہیں۔

کچھ برس قبل ڈیٹڑائیٹ کے ایک اخبار میں ایک خاتون نے خط لکھ کر مشورہ مانگا۔ خاتون نے بتایا کہ ان کے بیٹے نے 2019 میں بھارتی والدین کی اکلوتی بیٹی سے شادی کرلی اور بہو نئے خاندان میں گھلنے ملنے کو تیار نہیں تھی۔ ”پچھلے کرسمس کے دوران وہ خود میں بند رہی، کمپیوٹر پر کام کرتی رہی، اپنے کتے سے کھیلتی رہی۔ یا پھر گیسٹ بیڈ روم تک محدود رہی۔ جب کہ اس دوران میرا بیٹا ہمارے ساتھ گھوم رہا تھا۔“

مغرب میں شادی شدہ بیٹے والدین کے ساتھ نہیں رہتے یا ان کو ساتھ نہیں رکھتے۔ یہ بھارتی بہو بھی اپنے شوہر کے ساتھ صرف کرسمس کے لیے ساس کے گھر آئی تھی۔ جب میاں بیوی واپس جانےلگے تو ساس کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا اور انہوں نے کچھ باتیں سنا دیں۔

خاتون نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد وہ اپنے بیٹے کو ایک طویل ای میل لکھ کر معافی مانگ چکی ہیں اور بہو سے معافی مانگنے کو بھی تیار ہیں اگر انہیں یہ یقین ہو کہ بہو معافی قبول کر لے گی۔ لیکن حالت یہ ہے کہ بیٹے نے ہی جواب نہیں دیا۔

برصغیر میں ساس بہو کا جھگڑا اتنا شدید ہے کہ کچھ عرصہ قبل بوسٹن یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی کے ماہرین نے مل کر ایک تحقیق کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ چونکہ ساس اپنی بہو اور بیٹے ہی زندگی پر مکمل کنٹرول چاہتی ہے اس لیے جھگڑے ہوتے ہیں۔ اس تحقیق میں ساس کو control freak بتایا گیا۔

ساس کو ظالم دکھانے والی یہی ایک تحقیق نہیں بلکہ اکنامسٹ میگزین نے 2013 میں Curse of the mummyji کے عنوان سے ایک مضمون بھی شائع کیا تھا۔ بھارت کے شہری علاقوں میں تقریبا ہر بہو اپنی ساس کو ”ممی جی“ کہتی ہے۔ اسی مناسبت سے مضمون کا نام رکھا گیا۔

تقریباً دس برس پرانے اس مضمون میں دی اکنامسٹ نے لکھا تھا کہ بھارت میں ”لہر بہو کے حق میں بہنا شروع ہو گئی ہے۔“ اس کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ بہوؤں نے ساس کے کنٹرول سے نکلنا شروع کردیا ہے۔ یہی بات پاکستانی بہو پر بھی لاگو ہوتی ہے۔

بڑھتی تعلیمی قابلیت، ملازمت کے مواقع اور معاشرتی آزادی کے سبب بہو اب امید کرتی ہے کہ شوہر ماں کے بجائے بیوی کا ساتھ دے گا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ڈیٹرائٹ میں انگریز خاتون نے اپنے ہندوستانی بہو کے ساتھ کیا ظلم کیا تھا جو وہ باقی گھروالوں کے ساتھ گھلنے ملنے سے انکاری رہی اور آخر میں خاتون کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا۔

پھر یہ بھی ہے کہ اگر ساس معافی مانگ بھی لے تو کون سی بہو تسلیم کرے گی کہ معافی پوری نیک نیتی سے مانگی گئی ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ڈیٹرائٹ میں اخبار کی مشورے دینے والی آنٹی ایمی نے خاتون کو مشورہ دیا کہ وہ بغیر انتظار کیے اپنی ہندوستانی بہو سے ”پوری دیانت داری کے ساتھ“ معافی مانگیں جس میں وہ اپنی غلطی بھی تسلیم کریں کہ انہوں نے سخت الفاظ استعمال کیے۔

Saba Faisal

Mother in law

Daughter in law

Domestic Abuse