کیا پٹرول قیمت میں کمی کیلئے آئی ایم ایف معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی؟
عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کئی ہفتوں سے مسلسل کم ہونے کے باوجود حکومت نے پہلی مرتبہ پیٹرول، ڈیزل اور دیگر مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی ہے۔ اس سے قبل وزیر خزانہ اسحاق ڈار کہہ رہے تھے کہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر عمل پیرا رہے گی۔
اس معاہدے کے تحت پاکستان نے عالمی مالیاتی ادارے سے وعدہ کر رکھا ہے کہ پیٹرولیم لیوی کم ازکم 50 روپے فی لیٹر رہے گی۔ ایک عام تاثر تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے سبب ہی حکومت قیمتیں کم نہیں کر رہی۔ تاہم اب جب کہ قیمت 10 روپے کم ہو گئی ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ توڑ دیا ہے۔
حکومت کی جانب سے نئی قیمتوں کے اعلان کے بعد پیٹرول 214.8 روپے فی لیٹر اور ہائی اسپیڈ ڈیزل 227.80 روپے فی لیٹر دستیاب ہوگا۔
نئی قیمتوں کے ساتھ اوگرا کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت کے تعین کے لیے کیے گئے حساب کتاب کی تفصیل بھی جاری کی گئی ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اب بھی پیٹرول پر اچھا خاصا ٹیکس وصول کر رہی ہے۔
پیٹرول پر کتنا ٹیکس لیا جا رہا ہے
اوگرا کی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں عام فروخت ہونے والا RON92 پیٹرول 119 روپے 30 پیسے میں بندرگاہ پر پڑتا ہے۔ یہاں پیٹرول پر درآمدی ٹیکس لگتا ہے، اس کے بعد یہ ریفائنریز میں جاتا ہے اور پھر وہاں سے تیل کمپنیوں کو فراہم کیا جاتا ہے جو اسے پمپوں پر پہنچاتی ہیں۔
پیٹرول پر درآمدی ٹیکس 10 فیصد ہے۔ یہ ٹیکس اور ترسیل کے اخراجات ملا کر تیل کمپنیاں149.26روپے فی لیٹر میں پیٹرول خرید رہی ہیں۔ اسے تکنیکی زبان میں PSO Cost of supply یا base price کہتے ہیں۔ پمپ جب صارف کو پیٹرول فروخت کرتے ہیں تو اس میں مزید ٹیکسز اور کمیشن کا اضافہ کیا جاتا ہے۔
موجودہ کیلکولیشن میں اس وقت پیٹرول پر آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کا مارجن 5 روپے فی لیٹر ہے جب کہ پمپ مالکان کا حصہ 7 روپے فی لیٹر ہے۔ ان لینڈ فریٹ مارجن 3.54 روپے ہے۔ ان تینوں کو ملا کر بھی پیٹرول صارفین کو 137.8 روپے فی لیٹر میں ملنا چاہیے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ حکومت پیٹرول پر بھاری لیوی وصول کر رہی ہے۔
اوگرا کی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت حکومت 50 روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی وصول کر رہی ہے۔ یہ لیوی عائد ہونے کے بعد پیٹرول کی قیمت 214.8 روپے پر پہنچ جاتی ہے۔
پیٹرول لیوی کے 50 روپے اور درآمد پر ٹیکس ملا کر تقریبا 70 روپے فی لیٹر حکومت کی جیب میں جا رہے ہیں۔
کیا حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدے کی خلاف ورزی کی؟
اوگرا دستاویزات سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت نے پیٹرولیم لیوی 50 روپے فی لیٹر پر برقرار رکھی ہے۔ یعنی معاہدے کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔
رواں برس کے شروع میں سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے پر یہ لیوی ختم کر دی تھی۔ اگرچہ لیوی کو 50 روپے فی لیٹر تک لے جانے کا معاہدہ بھی انہی کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کیا تھا۔
عمران خان نے انہی دنوں میں پیٹرول پر سیلز ٹیکس کی شرح صفر کر دی تھی۔ جو اب تک برقرار ہے۔
مستقبل میں اگر پاکستان سستا پیٹرول یا ڈیزل حاصل کر بھی لیتا ہے یا عالمی منڈی میں قیمتیں مزید گر جاتی ہیں تو عین ممکن ہے حکومت سیلز ٹیکس بھی عائد کردے۔
Comments are closed on this story.