Aaj News

جمعرات, نومبر 21, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

ملاکا چھڑی کمانڈ کی تبدیلی کی علامت کیوں

دبلی پتلی چھڑی کا بھاری بھرکم گرز سے کیا تعلق
اپ ڈیٹ 28 نومبر 2022 04:27pm
Artwork: Obair Khan/Aaj Digital
Artwork: Obair Khan/Aaj Digital

سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ منگل 29 نومبر 2022 کو پاکستان کی بری فوج کی کمان اپنے جانشین جنرل عاصم منیر کے حوالے کر رہے ہیں۔ کمانڈ کی تبدیلی کی تقریب میں ایک اہم موقع وہ ہوگا جب جنرل قمر جاوید باجوہ ”کمان کی چھڑی“ جسے انگریزی میں baton of command کہا جاتا ہے، جنرل عاصم منیر کو سونپیں گے۔

کمانڈ یا کمان کی چھڑی نئے آرمی چیف کے منصب سنبھالنے کی تقریب میں ہی مرکزی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ اس کی تیاری کا عمل بھی خاصا اہم ہے۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ چھڑی حوالے کرنے کی روایت کب پڑی۔

پاکستان کی حالیہ تاریخ میں کمانڈ کی چھڑی منتقل کیے جانے کے جو مناظر بہت زیادہ دلچسپی سے دیکھے گئے وہ جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں کمانڈ کی جنرل اشفاق پرویز کیانی کو منتقلی کے تھے۔ جنرل پرویز مشرف 9 برس بعد اس چھڑی سے جدا ہو رہے تھے۔ مسلم لیگ (ق) نے انہیں تاحیات وردی میں منتخب کرانے کا عزم کررکھا تھا لیکن پھرحالات اس موڑ پر لے آئے کہ انہیں فوج کی سربراہی چھوڑنا پڑی۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد وہ صدارت سے بھی محروم ہوگئے۔

جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کمانڈ چھڑی جنرل راحیل شریف کو 6 برس بعد سونپی۔ راحیل شریف کے پاس یہ چھڑی 3 برس رہی اور پھر جنرل قمر جاوید باجوہ آرمی چیف بنے جو توسیع ملنے کے سبب 6 برس بعد کمانڈ منتقل کر رہے ہیں۔

روایت کہاں سے شروع ہوئی

مسلح افواج ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس ہوتی ہیں تو پھر ایک بے ضرر چھڑی کو ہی کمانڈ کی منتقلی کی علامت کے طور ہی کیوں استعمال کیا جاتا ہے جب کہ اس کا کوئی استعمال بھی نہیں۔ کم ازکم اس سے لڑائی تو ہر گز نہیں لڑی جا سکتی۔

جنگی مؤرخین کے مطابق کمانڈ کی چھڑی کا تعلق ان ابتدائی روایات سے ہے جن میں جنگجو سردار کے پاس انتہائی وزنی لیکن حجم میں چھوٹا ”گرز“ ہوتا تھا۔ انگریزی میں اسے mace کہتے ہیں۔ قدیم زمانے کے قصے کہانیوں میں بھی آپ نے اس کا ذکر پڑھا ہوگا۔ ایشیا اور بالخصوص برصغیر میں لوگوں کے ذہن میں گرز سے جو تصویر بنتی ہے وہ ایک گول فٹ بال نما ہتھیار کی ہے جس کے ساتھ ایک ہینڈل نکلا ہوتا ہے۔ مغربی دیومالائی داستانوں میں گزر کی شکل مختلف ہے۔ وہاں پر گرز کا تصور ایک چھڑی نما ہتھیار کا ہے جس کے ایک سرے پر بھاری آہنی ٹکڑا ہوتا ہے اور دوسرے سرے پر ہینڈل۔ درمیان کا پورا حصہ چھڑی نما ہے۔

پرانے وقتوں میں جنگیں جیتنے کے لیے ذہنی طاقت کے ساتھ جسمانی طاقت کی اہمیت ہوتی تھی اور جنگجو سردار یہ وزنی گرز بآسانی اٹھا لیتے تھے اور ضرورت پڑنے پر استعمال بھی کرتے تھے۔ جیسے جیسے وقت گزرا اور زرہ بکتر کا رواج بڑھا تو گرز کی عملی افادیت کم ہونے لگی۔ تاہم روایت کے طور پر یہ موجود رہا۔ مغرب میں 14ویں صدی میں گزرعلامتی طور پراستعمال ہونے لگے۔ اب وزنی گرز سپہ سالار کے بجائے سارجنٹ ایٹ آرمز اٹھاتا تھا۔ مغرب میں استعمال ہونے والا گرز (بائیں) مشرق میں زیر استعمال گرز سے مختلف تھا۔ کویٹو کامنز

وقت کا پہیہ مزید گھوما اور 16ویں صدی تک مغرب میں ”گرز“ اپنے ایک سرے پر موجود آہنی ٹکڑا اور دوسرے سرے پر موجود ہینڈل کھو بیٹھا۔ بس درمیان کی پتلی چھڑی رہ گئی ۔ گرز کی شکل تبدیل ہونے کے باوجود اب بھی یہ طاقت کی علامت تھا۔

یہ چھڑی اب سیاست اور فوج دونوں میں استعمال ہونے لگی۔ برطانیہ سمیت کئی ممالک کی پارلیمنٹ میں سارجنٹ ایٹ آرمز کے پاس اس طرح کی چھڑی ہوتی ہے۔ اسی طرح فوجی کمانڈروں کے پاس بھی یہ چھڑی ہوتی ہے۔

خاص بانس سے تیار ہونے والی چھڑی

کمانڈ کی چھڑی کو ”ملاکا کین“ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ چھڑی سنگاپور کے جزیرے ملاکا سے حاصل ہونے والے ایک مخصوص بانس سے تیار کی جاتی ہے۔ اسی طرح کا بانس انڈونیشیا کے جزیرے سما ٹرا میں بھی پایا جاتا ہے لیکن روایت ملاکا کا بانس استعمال کرنے کی ہے۔

ملاکا کین کی مختلف اشکال

ملاکا کا یہ بانس وزن میں بہت ہلکا لیکن انتہائی مضبوط ہوتا ہے۔

پاکستان کے علاوہ بھارت، سری لنکا اور برطانیہ میں بھی مسلح افواج کے کمانڈر اسی بانس سے تیار ہونے والی چھڑی رکھتے ہیں۔

آرمی چیف کب چھڑی اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے

پاکستان کی فوجی روایات کے تحت مخصوص مواقع پر کمانڈ کی چھڑی ساتھ رکھنا آرمی چیف اور دیگر کمانڈروں کے لیے لازمی ہے۔

قومی پرچم کو سلامتی دیتے وقت، گارڈ آف آنر وصول کرتے وقت اور پریڈ ملاحظہ کرتے ہوئے آرمی کمانڈ لازما چھڑی اپنی بغل میں دبائے ہوتے ہیں۔

دوسری جانب بعض مواقع پر کمانڈ کی چھڑی دور رکھی جاتی ہے۔ جب بھی آرمی چیف صدر، وزیراعظم یا کسی اور بڑی شخصیت سے ملتے ہیں کمانڈ کی چھڑی ان کے ساتھ نہیں ہوتی۔

پاکستان میں آرمی چیف کے علاوہ کور کمانڈرز اور جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) کے پاس کمانڈ کی چھڑی ہوتی ہے۔

پچھلی بار جب کمانڈ کی تبدیلی ہورہی تھی تو ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ چھڑی ٹوٹ جائے تو کیا ہوگا۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا یہ چھڑی طاقت کی محض ایک علامت ہے۔ ایک چھڑی ٹوٹ جائے تو فوجی کمانڈر نئی چھڑی استعمال کر لیتا ہے۔

قدیم زمانے میں گرز سپہ سالار کی طاقت کا حصہ تھا۔ اب طاقت صرف عہدے میں ہے چھڑی میں نہیں۔