پی ٹی آئی مارچ ختم، اب آگے کیا ہوگا
عمران خان نے مارچ ختم کو دیا اور بہت سے لوگ اسے ”اچانک“ کہہ رہے ہیں لیکن یہ اتنا اچانک بھی نہیں تھا۔
ہفتہ 26 نومبر کی شام اسلام آباد میں پولیس اور پیراملٹری فورسز تیار تھیں،کئی لوگوں کا خیال تھا کہ عمران خان فیض آباد سے اسلام آباد کی طرف رخ کرکے 2014 کی تاریخ دہرائیں گے۔ ایسے میں عمران خان کے اعلان سے لوگ حیران رہ گئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بڑے اشارے راولپنڈی جلسے سے ایک دن پہلے ملنا شروع ہوگئے تھے۔
پنجاب انتظامیہ نے جمعہ کو جلسے کا اسٹیج فیض آباد سے ہٹا کر مری روڈ پر دوکلومیٹر اندر رحمان آباد پر منتقل کردیا۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر شبلی فراز احتجاج کرتے دکھائی دیئے۔ لیکن پارٹی رہنما اور صوبائی وزیر عمر چیمہ نے کہاکہ اسٹیج کے مقام پر کوئی اختلاف نہیں۔
فیض آباد اسلام آباد کے ساتھ لگتا ہے۔ رحمان آباد دوکلومیٹر کے محفوظ فاصلے پر ہے۔ مری روڈ کا دوسرا کنارہ جہاں ایک اہم عمارت ہے یہاں سے کافی دور ہے۔
دوسرا بڑا اشارہ اس وقت ملا جب ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کی طرف سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں دیگر سیکیورٹی ہدایات کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ ”پی ٹی آئی کے کارکنان جلسے کے بعد جلسہ گاہ کو مکمل طور پر خالی کر دیں گے۔“
جلسہ ختم ہونے کے بعد راولپنڈی پولیس نے سوشل میڈیا پراعلامیہ جاری کیا اور کہا کہ ”سیاسی جماعت کا جلسہ راولپنڈی پولیس کے سخت سیکورٹی حصار میں پرامن اختتام پذیر“۔ یہ سخت سیکورٹی والا حصار جملہ بیان میں سب سے اوپر تھا اور ڈپٹی کمشنر کے بیان کے تناظر میں معنی خیز بھی۔
مارچ جس انداز میں ختم ہوا اس سے مستقبل کے سیاسی حالات کا اندازہ ہوتا ہے. اس نئے مستقبل میں کسی مصنوعی سہارے کے بغیر تحریک انصاف کی حقیقی سیاست شروع ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
شنید ہے کہ تحریک انصاف کے کئی رہنما پارٹی محض اس لیے نہیں چھوڑ رہے کہ عمران خان کے پاس ووٹ بینک ہے۔ اس سے قبل مسلم لیگ(ن) کا ووٹ بینک نواز شریف کا تھا، پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک بھٹو کا تھا اور اب تحریک انصاف کا ووٹ عمران خان کا ہے۔ برصغیر میں سیاست شخصیات کے گرد گھومتی ہے۔ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
عمران خان نے اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کیا تو فواد چوہدری نے جمع تفریق کرکے بتایا کہ مجموعی طور پر ساڑھے پانچ سو سے زائد قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں خالی ہو جائیں گی۔
تحریک انصاف کو امید ہے کہ بڑی تعداد میں نشستیں خالی ہونے سے اگر قومی اسمبلی نہ بھی توڑی گئی تو پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تو تحلیل ہو ہی جائیں گی۔
فواد چوہدری کا حساب کتاب اس کا اشارہ کرتا ہے کہ وہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ اسمبلیاں ٹوٹنے کی امید لگائے ہوئے ہیں۔ اس لیے انہوں نے ان دونوں اسمبلیوں کی ان تمام نشستوں کی تعداد شامل کی ہے جن پر براہ راست انتخاب ہوتا ہے۔ یعنی پنجاب اسمبلی میں 297 نشستیں اور خیبرپختونخواہ اسمبلی میں 115 نشستیں۔ دیگر اسمبلیوں کے حوالے سے انہوں نے صرف ان سیٹوں کی تعداد دی ہے جن پر تحریک انصاف کے اراکین ہیں۔
اگر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں قبل از وقت انتخابات ہو جاتے ہیں تو ان اسمبلیوں کی پانچ سالہ مدت اس دن سے شروع ہوگی جب یہ حلف اٹھائیں گی۔ بالفرض مارچ میں یہ اسمبلیاں حلف اٹھاتی ہیں تو اکتوبر میں عام انتخابات کے وقت ان دونوں صوبوں میں صوبائی انتخابات نہیں ہوں گے بلکہ یہاں سیاسی جماعتوں کی حکومتیں ہوں گی۔ پی ٹی آئی کو امید ہے کہ یہ حکومتیں اس کی ہوں گی۔
تحریک انصاف کو امید ہے کہ اگر اکتوبر میں ان دو صوبوں میں وہ برسراقتدار ہوئی تو قومی اسمبلی کے انتخابات پر اثرانداز ہونا اس کے لیے آسان ہوگا۔
پی ٹی آئی کے مزمل اسلم قریب قریب یہی بات زبان پر بھی لے آئے۔
پاکستان کے معاشی مسائل ابھی حل نہیں ہوئے اور مسلم لیگ(ن) کے رہنما برملا کہتے ہیں کہ گذشتہ چھ ماہ کے دوران ضمنی الیکشن میں عمران خان کی کئی حلقوں سے کامیابی کا سبب یہ ہے کہ ووٹر نواز لیگ سے ناراض ہیں۔ ان کی ناراضی کا سبب ملک میں ہونے والی مہنگائی ہے۔
اکتوبر تک مہنگائی برقرار رہنے سے ن لیگ اور پی پی کا ووٹر مزید ناراض ہو سکتا ہے لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ اس وقت تک معاشی مسائل برقرار رہیں!
مسلم لیگ(ن) کے ذرائع کے مطابق پچھلے چھ ماہ میں معاشی استحکام نہ آنے کی وجہ ملک کی غیریقینی صورت حال تھی جس میں عمران خان کے جلسوں اور دھرنوں نے ایک اہم کردار ادا کیا۔
عمران خان اپنی تقاریر میں کہہ چکے ہیں کہ اداروں کے اندر سے لوگ انہیں معلومات فراہم کرتے رہے ہیں۔
حکومتی وزرا یہ دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں کہ سعودی ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان بھی تحریک انصاف کے لانگ مارچ کی وجہ سے متاثر ہوا۔ اس دورے میں محمد بن سلمان نے پاکستان میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کرنا تھا۔
حکومت کی توجہ سیاسی مسائل پر ہونے کے سبب وہ سیلاب متاثرین کی بحالی کا منصوبہ بھی تیار نہیں کر سکی۔ اس منصوبے سے پاکستان کو خاطرخواہ رقم ملنے کی توقع ہے۔ بیرون ملک سے پیسہ آنے سے پاکستانی کرنسی کی قدر میں استحکام آسکتا ہے۔
سیاسی صورت حال کے سبب حکومت کی توجہ اتنی بٹی کہ گذشتہ ہفتے آئی ایم ایف کی پاکستان میں نمائندہ ایستھر پیرز ریز کو حکومت کو خط لکھنا پڑا۔
اداروں میں تبدیلی آنے سے اب صورت حال بدلنے کا امکان ہے۔
اگر حکومت معاشی بحران پر قابو پا لیتی ہے تو صرف روپے کی قدر بہتر ہونے سے مہنگائی کے اثرات کم ہو جائیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
اکتوبر تک معیشت کا قبلہ درست ہونے سے عام آدمی کو سکھ کا سانس لینے کا ووٹ ملا تو ن لیگ سیاسی میدان میں پی ٹی آئی سے تگڑا مقابلہ کر پائے گی۔
حکومت کو معاشی محاذ پر اہداف حاصل کرنے سے روکنے کیلئے تحریک انصاف کا پاس یہی راستہ ہے کہ وہ سیاسی ہنگامہ خیزی جاری رکھے۔ پنجاب اور خیبرپختخوا میں قبل از وقت انتخابات اس ہنگامہ خیزی کو ازخود ممکن بنا دیں گے۔
دوسری جانب اگر حکومت نے اسمبلیاں تحلیل نہ ہونے دیں اور دونوں جگہ حکومت بنا لیں یا کم ازکم پنجاب کو ہی بچا لیا تو تحریک انصاف کی چال الٹ پڑ سکتی ہے۔ وہ حکومتی وسائل سے محروم ہو جائے گی۔
اس بات کے اشارے موجود ہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہی پنجاب اسمبلی توڑنے کے حق میں نہیں۔ وہ آئندہ انتخابات سے پہلے پنجاب میں اپنی جماعت کی پوزیشن بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ جولائی کے آخر میں وزارت اعلیٰ ملنے کے بعد انہوں نے صوبے میں پانچ نئے اضلاع کے قیام، نکاح نامے میں ختم نبوت کی شرط شامل کرنے سمیت ایسے اقدامات کیے ہیں جن سے ان کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوسکے۔ سڑکوں کی تعمیر کے کئی منصوبے ابھی جاری ہیں اور پرویز الہیٰ مختصر وقت کو زیادہ سے زیادہ سودمند بنانا چاہتے ہیں۔
حالیہ حقیقی آزادی مارچ کے دوران پرویز الہی نے اپنے پتے بہت احتیاط سے کھیلے ہیں۔ انہوں نے ایف آئی آر کے معاملے پر محتاط رویہ دکھایا اور پنجاب کے اندر آنے والے گیریژن سٹی کے اندر مظاہرہ نہیں ہونے دیا۔ اگر عمران خان پنجاب اسمبلی چھوڑنے کا اعلان کرتے ہیں تو بہت ممکن ہے کہ نہ صرف پرویز الہیٰ سمیت مسلم لیگ(ق) کے اراکین بلکہ تحریک انصاف کے کئی اراکین پنجاب اسمبلی بھی استعفے دینے سے انکار کردیں۔ ہوسکتا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کا فارورڈ بلاک سامنے آجائے۔
خیبرپختوانخوا اسمبلی جہاں ایک بالکل مختلف صور تحال ہے وہاں ایک رکن اسمبلی نے اتوار کو پہلے ہی اعلان کردیا ہے کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔
کے پی میں تحریک انصاف کے پاس 145 میں سے 95 سیٹیں ہیں جن میں ریزرو سیٹوں پر منتخب 27 اراکین بھی شامل ہیں۔ یہاں فاورڈ بلاک بنانے کی کوششیں اس سے پہلے کامیاب نہیں ہوسکیں۔ لہذا عین ممکن ہے کہ صوبائی اسمبلی کے لیے وقت سے پہلے الیکشن ہو جائے ۔ پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی اور اے این پی ایسی صورتحال سے بچنے کی سر توڑ کوششیں کریں گے۔
اس وقت تحریک انصاف اور عمران خان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ جلاؤ گھیراؤ سے خود کو دور رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں وہ ”سلیکٹڈ“ کا داغ بھی دھو لیں گے۔
یہ البتہ واضح نہیں کہ سیاست میں تلخ زبان کا استعمال بند ہوگا یا نہیں۔
Comments are closed on this story.