Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

ایک کہانی۔۔۔ آغاز بھی دُکھی، انجام بھی دُکھی!

'عمران خان عوام کی نبض جانتے ہیں'
شائع 24 نومبر 2022 03:52pm
تصویر بشکریہ: اے ایف پی
تصویر بشکریہ: اے ایف پی

کہانی شروع ہوتی ہے28مارچ کی ایک شام کو۔ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان پریڈ گراؤنڈ میں عوام کے جمِ غفیر کے سامنے اپنی جیب سے ایک کاغذ لہراکر فرماتے ہیں: ”یہ ہے ایک خط۔“ یعنی یہ ہے میرا نیا بیانیہ۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک کی خارجہ پالیسی کو مروڑنے کی کوشش باہر سے کی جارہی ہے اور بیرونِ ملک سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو متاثر کیا جارہا ہے۔

عمران خان عوام کی نبض کو جانتے ہیں۔ کس وقت کیا پتا پھینکنا ہے، ان سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔ لہٰذا لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اس سازش کا انھیں کئی ماہ سے علم تھاکہ یہ سازش ہو رہی ہے اور ”یہ جو آج اکٹھے ہوگئے ہیں، یہ جو آج قاتل اور مقتول اکٹھے ہوگئے، جنھوں نے اکٹھا کیا ہے، ان کا بھی ہمیں پتا ہے۔“ اس وقت کے وزیراعظم نے کہا کہ حکوم ت تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پیسہ باہر سے آیا ہے۔ لوگ ہمارے استعمال ہو رہے ہیں، زیادہ تر انجانے میں لیکن کچھ جان بوجھ کر ہمارے خلاف استعمال ہورہے ہیں۔ چونکہ گیم ابھی جاری تھی، لہٰذا انہوں نے ایک کھڑکی ساتھ ہی کھولتے ہوئے ”منحرف“ اراکین کو یہ بھی کہہ دیا کہ ہمارے خلاف جو ووٹ دینے جائے گا، میں ان سے یہ کہوں گا کہ یہ نہ کرنا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ”میرے پاس جو خط ہے یہ ثبوت ہے، اور اگر کوئی بھی شک کر رہا ہے تو میں آپ کو دعوت دوں گا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میں کس قسم کی بات کر رہا ہوں۔“

عمران خان کا کہنا تھا کہ بیرونی سازش کی ایسی بہت سی باتیں ہیں جو مناسب وقت پر اور بہت جلد سامنے لائی جائیں گی اور قوم جاننا چاہتی ہے کہ لندن میں بیٹھا ہوا شخص کس سے ملاقاتیں کر رہا ہے اور پاکستان میں بیٹھے ہوئے کردارکس کے کہنے پر چل رہے ہیں؟ عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومت جاتی ہے جائے، جان جاتی ہے جائے، ان کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔

عمران خان نے زمین تیارکی۔ بہت سے پریشان ہوئے کہ واقعی کہیں کوئی سازش ہورہی ہے؟ لیکن یہ اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ سازش کرنے والا کون تھا اور سازش کے کردار کون ہیں؟ پھر ایک اور شام کو انہوں نے ٹی وی پر قوم سے خطاب کا مژدہ سنایا۔ 31مارچ کی شام قوم سے تقریباً 50 منٹ طویل خطاب کیا جس میں انہوں نے اپنے خلاف مبینہ طور پر بیرون ملک تیار ہونے والی سازشوں کا ذکر کیا اور اس دوران وہ ”غلطی“ سے امریکہ کا نام بھی لے بیٹھے۔ اس سے پہلے باضابطہ طور پر کسی حکومتی عہدے دار نے واضح طور پر امریکہ کا نام نہیں لیا تھا۔

اکتیس مارچ (خط موصول ہونے کے تین ہفتے بعد) کو ہی وزیر اعظم کے خطاب سے کچھ گھنٹے قبل قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں یہ معاملہ زیر بحث آیا جہاں وزیر اعظم، مسلح افواج کے سربراہان سمیت اہم حکومتی عہدے دار موجود تھے اور اس ملاقات کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے میں بھی ”دھمکی آمیز مراسلہ“ بھیجنے والے ملک کا نام نہیں لیا گیا تھا۔ تاہم اس اعلامیے میں بھی نہ ”دھمکی“ کا ذکر کیا گیا اور نہ ہی کسی ”سازش“ کا کہا گیا، البتہ یہ ضرور بتایا گیا کہ پاکستان سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس پر اپنا احتجاج درج کرائے گا، تاہم اس کے علاوہ اعلامیہ میں کسی غیر ملکی فنڈنگ یا ملک میں عدم استحکام کرنے کے منصوبے کا کوئی ذکر نہیں تھا۔

اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت نے اسے بھی اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہا، لیکن یہ دعویٰ اس وقت مزید مشکوک ہوگیا جب 14 اپریل 2022ء کو ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے یہ انکشاف کیا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیے میں سازش کا لفظ استعمال ہی نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ”اعلامیے کے اندر بڑے واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ کیا تھا اور کیا نہیں تھا، آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ کیا سازش کا لفظ ہے اس اعلامیے میں، میرا نہیں خیال۔“

اسی خط سے کھیلتے کھیلتے سابق وزیر اعظم تقریباً 50 جلسے کر جاتے ہیں اور اپنی تمام تر توانیاں اسی بیانیے کو زبان زدعام کرنے میں صرف کرتے نظر آئے۔ جس میں ایک عدد لانگ مارچ بھی شامل تھا۔

ایک طرف عمران خان یہ بیانیہ مضبوط کرتے رہے، جبکہ دوسری طرف وہ امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو بھی معمول پر لانے کی کوششیں کرتے نظر آئے۔ 12ستمبر کوعمران خان اور رابن رافیل کی ملاقات کی خبروں کے بعد عمران خان نے خود اس ملاقات کی تصدیق کی۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اْن کا کہنا تھا کہ رابن رافیل کو وہ پرانا جانتے ہیں، اور وہ یہ کہ رابن رافیل اِس وقت امریکی حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ تھنک ٹینکس کے ساتھ ہیں۔

یہ ملاقات اس تناظر میں اہم سمجھی جا رہی تھی کیونکہ عمران خان کی جانب سے ان کی حکومت کے خاتمے پر ایک بیرونی سازش کو ذمہ دار قرار دیا گیا جس میں ان کے بقول اپوزیشن جماعتیں شریک کار بنیں جس کے بعد سے عمران خان سمیت تحریک انصاف کے چند رہنما امریکا پر مسلسل تنقید کرتے رہے ہیں۔ تاہم حیرت انگیز طور پر اگلے روز جب عمران خان نے ایک انٹرویو کے دوران یہ کہا کہ ”باہمی تعلقات میں مسئلے آتے ہیں، وہ ٹھیک ہو جاتے ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ کٹی (ناراضگی) ہو جاتی ہے کسی سے۔“

اس سازش بیانیے کی قلعی اس دن بھی کھل گئی جب 28ستمبر کو پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک نئی آڈیو سامنے آئی جس میں عمران خان اور ان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کو امریکی ”دھمکی“ سے متعلق مراسلے کے معاملے پر گفتگو کرتے سنا گیا۔ اس آڈیو کا آغاز عمران خان کی آواز سے ہوتا ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ”اچھا اب ہم نے صرف کھیلنا ہے، نام نہیں لینا امریکا کا۔۔۔ بس صرف کھیلنا ہے اس کے اوپر۔“

دو اکتوبر کو عمران خان نے ٹی وی چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سائفر کے غائب ہونے سے متعلق سوال پر جواب دیا کہ ”اگر تو وہ ڈی کلاسیفائی ہے، تو پھر اس کا چھاپہ مار کر کیا کرنا ہے۔ ایک میرے پاس تھا اور وہ غائب ہو گیا، کہیں ہو گیا، مجھے نہیں پتا۔“

لیکن حیرت انگیز طورپر 13 نومبر عمران خان نے خود اپنی کہانی کا ”دُکھی اختتام“ اس وقت کردیا جب انہوں نے کہا کہ اقتدار سے ہٹائے جانے کے لیے اب میں امریکی انتظامیہ کو مزید مورد الزام نہیں ٹھہراتا۔ عمران خان نے یہ باتیں برطانوی اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ امریکا اور پاکستان کے درمیان باوقار تعلقات چاہتے ہیں۔مبینہ سازش میں امریکا کے کردار کے حوالے سے عمران خان نے تبصرہ کیا کہ ”جہاں تک میرا خیال ہے یہ معاملہ اب ختم ہوچکا ہے، میں آگے بڑھ چکا ہوں۔“

دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان نے جہاں تک پیغام پہنچانا تھا، وہاں تک پہنچ گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی تردید آئی کہ ایسا کچھ نہیں۔ لیکن ”فنانشل ٹائمز“ نے اس کی ویڈیو جاری کرکے حقیقت آشکارکردی کہ جو اخبار نے دعویٰ کیا ہے عمران خان نے وہی کچھ کہا ہے۔

یہ تھا اس کہانی کا اختتام۔ آغاز بھی دُکھی اور اختتام بھی دُکھی۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کیا ”مارکیٹ“ میں اب کوئی نئی کہانی لاتے ہیں یا پھر اسی کہانی کو نیا موڑ دے کر کوئی نیا سیزن شروع کرتے ہیں۔ یقینا یہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔

COAS

imran khan

Cypher

Army chief appointment

PTI long march 2022