نئے چیف کی تعیناتی: عمران خان کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے
پاکستانی افواہوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ سچ نکلتی ہیں۔ یہ افواہ بھی خبر بن کر سامنے آگئی ہے کہ وزیراعظم نے 27 نومبر کو ریٹائرمنٹ کا انتظار کرنے والے لیفٹینٹ جنرل عاصم منیر کو پاکستان کے نئے آرمی چیف کےلئے نامزد کردیا ہے۔
ایک ماہ سے گردش کرنے والی اس کہانی کا مرکزی کردار بھی یہی شخصیت تھی۔ جس کے بارے اپوزیشن کی سب سے بڑی شخصیت عمران خان اشاروں کنایوں میں اتنا کہہ پاتے تھے کہ جو بھی نیا چیف تعینات ہو بس میرٹ پر ہونا چاہیے۔ ایک روزپہلے تو خدشات کو محسوس کرتے ہوئے عمران خان نے یہاں تک کہ دیا تھا کہ وہ صدرمملکت سے رابطے میں ہیں، اور اگر ایسی کوئی سمری انہیں موصول ہوئی تو حتمی فیصلہ لینے سے پہلے صدر علوی انہیں اعتماد میں لیں گے۔
اب سیاسی تجزیہ نگار اس سوال کا جواب تلاش کررہے ہیں کہ اگر لیفٹینٹ جنرل عاصم منیر آرمی کی کمان سنبھال لیتے ہیں تو عمران خان کا کیا بنے گا۔ کیا انکی مستقبل کی سیاست پر کچھ اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، اور کیا عمران خان واقعی سمجھتے ہیں کہ یہی وہ افسر ہیں جنہیں وہ نام لیے بغیر نواز شریف کا پسندیدہ قرار دیتے تھے۔ کیونکہ نواز شریف کی زبان سے تو آج تک کسی ایسے جرنیل کا نام ادا نہیں ہوا۔سب کچھ ذرائع سے ہی سامنے آتا رہا ہے۔
عمران خان کو کسی بھی ایسے آرمی چیف سے کیا خدشات تھے جن کے بارے وہ سمجھتے تھے کہ اگر وہ سیاسی مخالفین کی پسند کا ہوا تو انہیں نقصان ہے۔ عمران خان ان خدشات کا ذکر متعدد بار کرچکے ہیں، وہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ نواز شریف ایسا آرمی چیف چاہتے ہیں جو انکی کرپشن کو تحفظ فراہم کرے، جو عمران خان کو نااہل قرار دلوا کر سیاست سے آؤٹ کردے۔ اور وہ یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ نواز شریف اپنی مرضی کا امپائر ساتھ ملائے بغیر کبھی میچ جیت ہی نہیں سکتے۔
حقیقی آزادی کی تحریک کے کپتان عمران خان کے لانگ مارچ کے جو اہداف سیاسی تجزیہ نگار بیان کرتے رہے ہیں، ان کے مطابق وہ چاہتے تھے کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے پہلے وہ راولپنڈی میں بڑا عوامی پاور شو کرکے نہ صرف پسند کو رکوا سکیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کو مجبور کرسکیں کہ وہ انہیں قبل از وقت انتخابات کی تاریخ لے کردیں۔
اب اس اہم تعیناتی پر نام آنے کا سسپنس ختم ہونے کے بعد عمران خان کے لانگ مارچ کے حتمی مرحلے کے غبارے سے کچھ ہوا تو نکل چکی ہے اور کچھ ہوا تو جانے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک روز قبل تاریخی خطاب کرکے نکال دی ہے۔ انہوں نے واضح کردیا ہے کہ اب فوج سیاست سے دور ہوچکی ہے، سیاستدانوں کو چاہیے کہ ملک کے وسیع تر مفاد کے لئے مفاہمت کا راستہ اختیار کریں۔ ان کی کچھ باتوں کا مفہوم واضح تھا کہ اب سیاستدان راولپنڈی کے گیٹ نمبر4 کی طرف دیکھنا بند کردیں۔
اگر اب سب کچھ حقیقت میں نیوٹرل ہونے جارہا ہے تو پھر عمران خان کی ایوان صدر کی طرف آخری آس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ طاقتورحلقوں کا یہ مشورہ دیگر کے ساتھ عمران خان کے بھی کام آئے گا کہ اقتدار بذریعہ الیکشن پر انحصار کریں۔ ایڈونچر کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔
عمران خان کو یہ بھی تسلی رکھنی چاہیے کہ اس طرح کہ عہدے پر ماضی میں اپنی پسند کسی کے کام نہیں آئی، بقول عمران خان ان سے بڑا متاثرہ فریق اور کون ہوسکتا ہے۔ اس لیے ’ویلکم ٹو نیوچیف‘ کے بغیر کسی کے پاس کوئی چارہ نہیں۔
Comments are closed on this story.