Aaj News

ہفتہ, نومبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Awwal 1446  

کیا سمری آئے بغیر اہم تعیناتی کا اعلان وزیراعظم کیلئے ممکن ہے

صدر عارف علوی کا کردار اہم
اپ ڈیٹ 22 نومبر 2022 03:03pm
صدر عارف علوی سروسزچیفس کے ساتھ۔۔۔ فوٹو اے ایف پی
صدر عارف علوی سروسزچیفس کے ساتھ۔۔۔ فوٹو اے ایف پی

پاکستان میں اس وقت اگلے آرمی چیف کا نام سامنے آمنے کا تمام سیاسی جماعتیں، ان کے کارکن، کاروباری حضرات اور صحافی انتظار کر رہے ہیں۔ کار مملکت اگر رکا نہیں تو سلو موشن میں ضرور آچکا ہے اور خود حکومتی حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اگلے آرمی چیف کے تقرر کے بعد ہی استحکام آئے گا۔

انتظار اس بات کا ہو رہا ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کب اپنے جانشین کے تقرر کے لیے سمری وزرت دفاع کو بھیجتے ہیں۔ یہ سمری پیر کو بھیجے جانے کی توقع تھی لیکن اب منگل کو بھی اسے ارسال کیے جانے کا کوئی واضح نہیں۔

معاملے کے مختلف اسٹیک ہولڈرز کے اپنے اپنے مفادات کے سبب نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ سنجیدہ ہوتا جا رہا ہے۔

مختلف فریقین کی پوزیشن

پی ٹی آئی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اسے امید ہے کہ اگلے آرمی چیف سے وہ الیکشن مانگ لے گی جو موجودہ آرمی چیف سے نہیں ملے۔ لیکن ساتھ ہی سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ”میرٹ“ کی تکرار سے اشارہ ملتا ہے کہ بعض یا کسی ایک جرنیل کے آرمی چیف بننے کے خیال سے وہ مطمئن نہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما سابق صدر آصف زرداری نے حالیہ دنوں ایک اہم بیان دیا جس میں انہوں نے کہاکہ “ تمام تھری اسٹار جنرلز برابر ہیں اور آرمی کی سربراہی کے مکمل اہل ہیں۔ لیکن اس بیان سے قبل آصف زرداری کے بارے میں بھی خبریں گرم رہیں کہ وہ ایک خاص جنرل کو آرمی چیف بنتا دیکھنا چاہتے تھے۔

مسلم لیگ نواز کے شاہد خاقان عباسی کی رائے مختلف ہے۔ پیر کی شب آج نیوز پر عاصمہ شیرازی کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ کسی اہل افسر کا نام سمری میں نہ ہوا تو یہ غیرقانونی ہوگا اور اگر نااہل افسر کا نام شامل ہوا تو یہ بھی غیرقانونی ہوگا۔ ’اہل نام شامل ہونے یا نہیں ہونے کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔‘

اطلاعاعت ہیں کہ نواز لیگ کے سربراہ نواز شریف ایک نام پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

سمری بھیجنے کا طریقہ اور تاخیر

وزیردفاع خواجہ آصف اس معاملے پر بات کرنے کے لیے سب سے موزوں عہدیدار ہیں کیونکہ فوج سے سمری انہی کی وزارت کے پاس آنی ہے اور انہوں نے ہی سمری وزیراعظم ہاؤس بھیجنی ہے۔

فوج کی روایات کے مطابق آرمی چیف کی جانب سے جو سمری بھیجی جاتی ہے اس میں تین یا پانچ سینئر ترین جرنیلوں کے نام ہوتے ہیں۔ اگر صرف آرمی چیف کا تقرر ہو رہا ہو تو تین نام بھیجے جاتے ہیں اور اگر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا بھی تقرر ہو رہا ہو تو پانچ نام بھیجے جاتے ہیں۔

ان ناموں کے ساتھ تمام افسران کے حوالے سے ڈوزیئرز بھی بھیجے جائیں گے جس میں ان کی سروس کا تمام ریکارڈ اور متعلقہ رپورٹیں موجود ہوں گی۔

خواجہ آصف چند ہفتے قبل تک کہہ رہے تھے کہ اکتوبر کی 18 یا 19 تاریخ کو سمری آ جائے گی۔ یہ تاریخ اس لیے اہم تھی کہ ایک سینئر جنرل ریٹائر ہو رہے تھے اور ان کی ریٹائرمنٹ سے پہلے سمری بھیجی جاتی تو ان کا نام بھی شامل ہوتا۔

لیکن 21 نومبر گزرنے کے بعد بھی سمری نہیں بھیجی گئی۔

خواجہ آصف اور وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا اصرار ہے کہ سمری کے حوالے سے تاخیر نہیں ہوئی۔ رانا ثنا اللہ نے پیر کی شب نجی ٹی وی پر انٹرویو میں کہا کہ 18 کے بعد ویک اینڈ شروع ہوگیا اور اب نئے ہفتے میں سمری آجائے گی۔

قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے خواجہ آصف نے بھی پیر کو بتایا کہ وزیراعظم آفس نے سمری بھیجنے کے لیے وزارت دفاع کو خط لکھ دیا ہے اور معاملات ایک دو دن میں طے پا جائیں گے۔

لیکن نجی ٹی وی کو انٹرویو میں وزیر داخلہ کسی حد تک مضطرب بھی دکھائی دیئے اور جب پوچھا گیا کہ اگر سمری موصول نہ ہوئی تو کیا ہوگا تو انہوں نے کہاکہ ہر دو صورتوں میں تعیناتی ہو جائے گی۔

آج ٹی وی پر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ سمری کا نہ آنا بہت بڑی ناکامی ہے۔

لیگی رہنماؤں کی اس گفتگو سے تاخیر کا تاثر پختہ ہوتاہے گوکہ حکومت کا بیانہ یہی ہے کہ تاخیر نہیں ہورہی۔

کیا وزیراعظم سمری کے بغیر آرمی چیف کا اعلان کرسکتے

نومبر کی 27 تاریخ کو موجودہ چیئرمین جوائنٹ چیفس جنرل ندیم رضا کی تین سالہ مدت پوری ہو رہی ہے اور یہ ان کی ریٹائرمنٹ کا دن بنتا ہے۔ یہی دن لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر کی ریٹائرمنٹ کا بھی ہے۔

اس بنا پر سمری 27 تاریخ سے پہلے وزیراعظم آفس کو موصول ہونا لازم ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف 25 اور 26 نومبر کو ترکیہ کے دورے پر ہوں گے لہذا سمری بھیجنے کیلئے آج، کل اور پرسوں کا دن باقی بچتا ہے۔

فوج کی جانب سے وزارت دفاع کو سمری موصول ہونے اور پھر اسے وزیراعظم آفس تک پہنچانے کیلئے یہ خاطرخواہ وقت ہے۔

لیکن رانا ثنااللہ کی جانب سے ”ہر دو صورتوں میں“ میں تعیناتی کی بیان نے کھلبلی مچا دی ہے۔ شیخ رشید نے اس بیان کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سب ایک پیج پر نہیں۔

اس سنسنی خیزی کا کچھ سبب لاعلمی بھی ہے۔ مثال کے طور پر پیر کے روز وزیر دفاع نے بیان دیا کہ وزیراعظم آفس نے سمری کے لیے وزارت دفاع کو خط لکھ دیا ہے تو سوشل میڈیا پر یہ تاثر پیش کیا گیا کہ وزیراعظم کو خط لکھنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم آفس کی جانب سے وزارت دفاع کو خط لکھ کر سمری طلب کر نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا پہلا قدم ہوتا ہے۔ اس خط کے ساتھ ’پراسس‘ کا آغاز ہو چکا ہے۔

لیکن اس کے باوجود بڑا سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم شہباز شریف آرمی چیف کی جانب سے سمری موصول ہوئے بغیر نئے چیف کا اعلان کر سکتے ہیں۔

اس سوال کا جواب آئین کے آرٹیکل 243، رولز آف بزنس 1973 اور پاکستان کی روایات میں موجود ہے۔

آرٹیکل 234 کی ذیلی شق 3 کے مطابق صدر وزیراعظم کے ”مشورے“ (Advice)پر چیئرمین جوائنٹ چیفس اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان کو تعینات کرتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم سے پہلے یہ لفظ consultation تھا جس کا مطلب مشاورت بنتا ہے۔ تاہم ایڈوائس کے معنی یہ ہے کہ وزیراعظم جو بھی نام پیش کریں گے صدر آئینی طور پر اسے منظور کرنے کے پابند ہیں۔

رولز آف بزنس 1973کے رول V-A میں درج ہے کہ فوج میں لیفٹننٹ جنرل اور اس سے اوپر کے عہدوں پر تقرر وزیراعظم صدر کی consultation سے کریں گے۔ اگرچہ رولز میں لیفٹننٹ جنرلز کی تقرری میں بھی وزیراعظم کا کردار بیان کیا گیا ہے لیکن عملی طور پر یہ ترقی مکمل طور پر آرمی چیف کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

یہی معاملہ سمری کا بھی ہے جو صرف سبکدوش ہونے والے آرمی چیف کی رائے ہی نہیں ہوتی بلکہ فوجی قیادت کی مجموعی رائے سمجھی جاتی ہے۔ ایسی سمری کی غیرموجودگی کو نظرانداز کرنا وزیراعظم کے لیے آسان نہیں۔

اس کے علاوہ قانون کے تحت صدر کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ وزیراعظم کی جانب سے بھیجی گئی سمری نظرثانی کے لیے واپس بھیج دیں۔ اس طرح وہ وزیراعظم کی جانب سے بھیجے گئے نام کی منظوری 25 دن تک التوا میں رکھ سکتے ہیں۔ وزیراعظم کے دفتر سے آنے والی ہر سمری پر دستخط کرنے کے لیے صدر کے پاس دس دن ہوتے ہیں جب کہ دس دن بعد وہ سمری واپس بھیج دیں تو مزید 15 دن وہ سمری وزیراعظم آفس میں رہتی ہے۔ مجموعی طور پر یہ 25 دن کا وقت بنتا ہے۔

موجودہ صدر عارف علوی کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔ اگر شہباز شریف فوج کی متفقہ رائے کا انتطار نہیں کرتے اور موقع سے فائدہ اٹھا کر عمران خان صدر عارف علوی کو سمری روکنے کا کہہ دیتے ہیں تو ایک بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

شہباز شریف فوج کی حمایت کے بغیر ایسی کسی مہم جوئی میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔

ماضی میں موجودہ آرمی چیف کی سمری کے بغیر ان کے جانشین کو تعینات کرنے کی کوشش کی ایک ہی مثال ملتی ہے۔ اکتوبر 1999 میں شہباز شریف کے بڑے بھائی نے جنرل مشرف کو ہٹا کر جنرل ضیاالدین بٹ کو آرمی چیف لگانے کی کوشش کی تھی۔ فوج نے اس عمل کی حمایت نہیں کی تھی۔

Army Chief

President Arif Alvi

General Qamar Javed Bajwa

PM Shehbaz Sharif

Army chief appointment

Lieutenant General Asim Munir