Aaj News

منگل, نومبر 05, 2024  
02 Jumada Al-Awwal 1446  

اُمِّ رباب کی جانب انصاف کا ایک قدم

پیپلز پارٹی کے دو اراکین اسمبلی پر تہرے قتل کیس میں فرد جرم عائد کر دی گئی۔
شائع 20 نومبر 2022 04:19pm
پی پی پی کے ایم پی اے برہان چانڈیو (بائیں) اور سردار چانڈیو (دائیں) پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری (درمیان) کے ساتھ۔ (تصویر بزریعہ سوشل میڈیا)
پی پی پی کے ایم پی اے برہان چانڈیو (بائیں) اور سردار چانڈیو (دائیں) پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری (درمیان) کے ساتھ۔ (تصویر بزریعہ سوشل میڈیا)

دادو کی ایک ماڈل ٹرائل کورٹ نے ہفتے کے روز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے وابستہ دو اراکینِ سندھ اسمبلی برہان اور سردار چانڈیو پر تہرے قتل کے مقدمے میں فرد جرم عائد کردی۔

برہان چانڈیو اور سردار چانڈیو آپس میں بھائی ہیں جن پر ایک ہی خاندان کے تین افراد کو قتل کرنے کا الزام ہے۔

مقتولین میں میہڑ تعلقہ کی بلدیاتی یونین کونسل کے اس وقت کے چیئرمین رئیس کرم اللہ چانڈیو اور ان کے دو بیٹوں مختیار چانڈیو اور قابیل چانڈیو شامل ہیں، جنہیں 17 جنوری 2018 کو فرید آباد تھانے کی حدود میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔

مقتول رئیس کرم اللہ کے ایک بیٹے کی جانب سے دائر کی گئی ابتدائی شکایت میں چانڈیو برادران سمیت پانچ دیگر افراد کو نامزد کیا گیا تھا۔

ہفتے کو ہونے والی سماعت میں، دونوں اراکین صوبائی اسمبلی نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی قصوروار نہ ہونے کی استدعا کی۔

برہان چانڈیو پر قتل جبکہ سردار پر اُکسانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

عدالت نے آئندہ سماعت پر گواہوں کو طلب کر لیا، جو 3 دسمبر کو ہو گی۔

مقدمے میں پانچ دیگر ملزمان کو بھی نامزد کیا گیا ہے، جن کی شناخت سکندر، علی گوہر، ستار، ذوالفقار اور مرتضیٰ کے نام سے ہوئی ہے۔

مقتول مختیار کی بیٹی اُمِّ رباب چانڈیو نے آج ڈیجیٹل کو بتایا کہ ان کے والد، چچا اور دادا کو اس لیے قتل کیا گیا کیونکہ وہ جاگیردارانہ نظام کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے، جو قبائلی رہنماؤں کو بالکل بھی پسند نہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ حملہ سردار کے کہنے پر کیا گیا، جو میہڑ میں اپنے قبیلے کا سردار ہے۔

شکایت کنندگان کا کہنا ہے کہ سردار کا چھوٹا بھائی برہان، جو اس وقت ایم پی اے نہیں تھا، فائرنگ کے وقت جائے وقوعہ پر موجود تھا۔

ام رباب نے کہا کہ اس کیس کے حوالے سے پولیس لاپرواہی کا اظہار کر رہی ہے۔

ام رباب نے پولیس کو مقدمے میں نامزد افراد کے سماجی اور سیاسی سرمائے سے منسوب کیا۔

پولیس کے اس رویے نے ام رباب کو اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب ناصر کی گاڑی کے سامنے آنے سمیت دیگر فورمز سے رجوع کرنے پر مجبور کیا۔

انہوں نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مقتول رشتہ داروں کے لیے انصاف کے لیے مہم بھی چلائی۔

اس وقت کے چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیا اور رباب کو انصاف کی یقین دہانی کرائی۔

ان کے اہل خانہ کو مقدمہ چھوڑنے کی دھمکیاں دئے جانے کی شکایت پر عدالت نے متعلقہ پولیس محکموں کو انہیں سیکیورٹی فراہم کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔

PPP

Umm e Rubab

Burhan Chandio

Sardar Chandio

Triple Murder Case