Aaj News

جمعرات, نومبر 21, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

کیا پی ٹی آئی نے جنرل عاصم منیر پر اپنا مؤقف بدل لیا

سوشل میڈیا پر ہوا کا رخ تبدیل، عارف علوی کا کردار اہم
اپ ڈیٹ 18 نومبر 2022 03:40pm
لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر
لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر

سوشل میڈیا کتنا طاقت ور ہے اس کا اندازہ بھارت میں اپوزیشن کی بڑی جماعت کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی کے حالیہ بیان سے لگایا جا سکتا ہے جن کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیاں کسی بھی جماعت کی حکومت بنوا سکتی ہیں۔ راہول کے مطابق سوشل میڈیا تعصب پھیلاتا ہے، لوگوں کی رائے بدل دیتا ہے اور اس طرح یہ پری پول دھاندلی کا ایک ہتھیار ہے۔

کسی بھی سیاستدان، صحافی یا کاروباری کمپنی کی جانب سے سوشل میڈیا کی اطلاعات کو من و عن قبول کرنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس بے اعتباری کے سبب ہی فیکٹ چیک کی اصطلاح وجود میں آئی لیکن سوشل میڈیا ہمیں رحجانات یا ٹرینڈز کے بارے میں ضرور بتاسکتا ہے۔

تو ان دنوں جنرل عاصم منیر سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک افواہیں تھیں کہ عمران خان عاصم منیر کے آرمی چیف بننے کے امکان سے خائف ہیں جبکہ نواز شریف انہی جنرل کو فوج کی کمانڈ دینے کے لیے زور لگا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کی تازہ خبر یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے لوگ اب عاصم منیر کی حمایت کر رہے ہیں۔ ہوا کا رخ بظاہر تبدیل ہو رہا ہے۔

پی ٹی آئی کے حلقوں کی طرف سے حمایت کے اشارے ان الفاظ کے ساتھ مل رہے ہیں کہ جنرل عاصم منیر موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی بیشتر پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔ موجودہ آرمی چیف کو پی ٹی آئی اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار سمجھتی ہے اور اشاروں کنایوں میں عمران خان اس بات کا اظہار بھی کئی مرتبہ کر چکے ہیں۔

ایک ایسے عالم میں جب پاکستان کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آئندہ آرمی چیف کون ہو گا؟ سوشل میڈیا پرجو نئی ہوا چلی ہے اس میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کور کمانڈرز کانفرنس میں جنرل عاصم منیر کا نام فائنل ہو گیا ہے لیکن موجودہ حکومت مجوزہ آرمی چیف سے کچھ ضمانتیں مانگ رہی ہے البتہ جنرل عاصم کی پوزیشن واضح ہے کہ وہ صرف اسی پالیسی کو اپنائیں گے جس میں فوج کی ساکھ بہتر ہو۔

ہوا کا رخ اتنا اچانک تبدیل ہوا ہے کہ کئی پی ٹی ائی حامی شکوک کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ کسی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے۔

’عاصم منیر جمہوری اقتدار کے حامی‘

بدلتے حالات میں ارشد شریف کا ایک پرانا کلپ بھی گردش کرنا شروع ہوگیا ہے۔ اس کلپ میں ارشد شریف کہتے ہیں کہ جنرل عاصم منیر کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ کے بارے میں اکثر لوگوں کا اتفاق ہے کہ یہ 27 نومبر بنتی ہے لیکن کئی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ دسمبر تک چلی جاتی ہے۔ ارشد شریف اس کلپ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر 27 نومبر سے پہلے سمری بھیجی گئی تو اس میں جنرل عاصم منیر کا نام سر فہرست ہوگا۔

یہ کلپ اکتوبر 2021 کے بعد ریکارڈ کیا گیا ہے کیونکہ اس میں ارشد شریف بتاتے ہیں کہ عاصم منیر اس وقت کوارٹر ماسٹر جنرل ہیں۔ گویا اس وقت تک آئی ایس آئی چیف کا عہدہ چھوڑے عاصم منیر کو تین برس ہو چکے تھے۔

ارشد شریف جنرل عاصم منیر کی بھرپور تعریف کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جنرل عاصم منیر ”انتہائی نفیس، شریف النفس آدمی ہیں۔ حافظ قران بھی ہیں اور جمہوریت پر جمہوری لیڈرشپ پر اور سویلین اتھارٹی پر ان کا اعتماد بالکل ہے کہ معاملات سویلین لیڈرشپ کو ہی چلانے چاہیں۔ ایک بڑا بے داغ قسم کا ان کا کیرئیر ہے۔ بہت سے کنٹری بیوشن ہیں ان کی پاکستانی فوج کے لیے۔“

نئی صورت حال سے قبل کہا جا رہا تھا کہ عمران خان جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف بنانے کے اس لیے مخالف ہیں کہ جب وہ آئی ایس آئی چیف تھے تو کسی معاملے پر عمران خان کے ان سے اختلاف ہوگئے تھے اور عمران خان نے انہیں آئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹا دیا تھا۔ سرکاری طور پر اس معاملے پر کبھی کچھ نہیں کہا گیا، نہ ہی عمران خان نے کبھی سرعام جنرل عاصم منیر کا نام لیا ہے۔

یہاں سوال یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جو کچھ کہا جا رہا ہے کیا یہ پی ٹی آئی اور عمران خان کی اپنی پوزیشن بھی ہے؟ سابق وزیراعظم نے جمعرات کولاہور میں اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اہم تقرری پر حکومتی حلقوں میں گھبراہٹ ہے اور یہ آپس میں دست و گریبان ہیں، لیکن اس معاملے پر ہماری پالیسی ”دیکھو اور انتظارکرو“ ہے۔

یہ گفتگو ان کے مؤقف میں تبدیلی کا مبہم اشارہ تھی۔

چند روز قبل عمران خان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف اہم تقرری پر اپنے بھائی نواز شریف سے مشاورت کرکے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور وہ اس خلاف ورزی کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔ عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نواز لیگ اپنا آدمی لانا چاہتی ہے۔

کیا عارف علوی نے عمران خان کو قائل کر لیا؟

بدلتی صورت حال نے ایک اور سوال بھی پیدا کیا ہے۔ کیا صدر عارف علوی عمران خان کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے؟

عمران خان جب وزیراعظم شہباز شریف کی نواز شریف اور آصف علی زرداری سے ہونے والی مشاورت کے خلاف بیانات دینے میں مصروف تھے تو صدر عارف علوی، جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہی ہے، وسیع تر مشاورت پر زور دے رہے تھے۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اکتوبر کے مہینے میں سینئر اینکر پرسن عاصمہ شیرازی کو آج نیوز پر انٹرویو میں کہا کہ اس اہم تعیناتی پر اتفاق رائے کے ذریعے وسیع تر مشاورت ہونی چاہئے۔

اینکر نے پوچھا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عمران خان سے بھی مشاورت ہونی چاہئے۔ صدر نے جواب دیا کہ میں سمجھتا ہوں مشاورت وسیع تر ہوتاکہ اتفاق رائے پیدا ہو۔ صدر نے مزید کہا ہے تاریخ میں ایسی مشاورت ہوتی رہی ہے، انہوں نے مزید کہا ہے کہ عمران خان کی وزارت عظمٰی کے دور میں تو ایکسٹنشن پر وسیع ترمشاورت ہوئی تھی۔ بلکہ بیک ڈور مشاورت بھی ہوئی تھی۔

تحریک انصاف کے ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ صدر مملکت نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ وزیراعظم کی اپنی پارٹی یا اتحادیوں سے مشاورت کو آپ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے ترازو میں نہ تولیں، آپ صرف میرٹ کی بات تک محدود رہیں۔

آئینی ماہرین کے مطابق پاکستان کے آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ایسی کوئی شق سرے سے موجود ہی نہیں ہے جن میں اس طرح کے امور کا ذکر ہو۔

عمران خان کے ایک قدم پیچھے ہٹنے کے بعد کیا نئے آرمی چیف کی تعیناتی معمول کے مطابق ہوگی یا ابھی بھی کچھ پسند ناپسند کے مراحل باقی ہیں؟

آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر بحث کا پنڈرورہ بکس آہستہ آہستہ بند ہوتا جارہا ہے، مگر سسپنس کے ختم ہونے میں ایک دو مراحل باقی ہیں۔

چونکہ تعیناتی کے اس عمل میں جی ایچ کیو، وزارت دفاع اور وزیراعظم ہاؤس فریق ہیں، اس لئے وزیردفاع خواجہ آصف کی باتیں اہمیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے اب تک میڈیا کو دیئے گئے مختلف انٹریوز میں جو اشارے دیئے ہیں، ان سے اس تعیناتی کے بارے میں کچھ اخد کیا جاسکتا ہے۔ خواجہ آصف کے مطابق آرمی چیف کا نام 25 یا 26 نومبر تک فائنل ہوجائے گا، 19 سے 21 نومبر تک سمری تیار ہونے کا امکان ہے۔ جی ایچ کیو سے موصول ہونے والے ناموں میں سے سینئر ترین کا نام فائنل کردیا جائے گا۔

ایک بیوروکریٹک معاملہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بھی ہے۔ ڈان اخبار کے نامہ نگار ریاض الحق کے مطابق حکومت آرمی ایکٹ میں ترمیم کررہی ہے تاکہ کسی بھی افسر کو ریٹائرمنٹ کی تاریخ کے بعد بھی عہدے پر برقرار رکھا جاسکے یا دوبارہ تعینات کیا جا سکے۔ وزیردفاع خواجہ کے مطابق آرمی ایکٹ میں تبدیلی کوئی غیر معمولی نہیں بلکہ عدالت عظمٰی کے حکم پر کسی ایک ترمیم کا جائزہ کسی مناسب وقت پر لیا جاسکتا ہے۔ بظاہر یہ سب کچھ نارمل نظر آرہا ہے۔ لیکن یہ مرحلہ خوش اسلوبی سے طے پانے کا تب کہا جاسکے گا اگر عمران خان کا نئے چیف پر کوئی ردعمل سامنے نہ آیا۔

COAS

Army chief appointment

Lieutenant General Asim Munir