آر می چیف بننے کی دوڑ میں سر فہرست 6 جرنیل کون ہیں
پاکستان کے نئے آرمی چیف کے نام پر سب کی نظریں مرکوز ہیں۔ چند ماہ پہلے تک بہت سے اندازے لگائے جارہے تھے، بہت قلابے ملائے جارہے تھے۔ مگر کسوٹی کے اس کھیل کو لندن میں نواز شریف اور شہباز شریف کی ملاقات کے ذرائع سے جاری ہونے والے اعلامیے نے کچھ آسان کردیا ہے۔
بیان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف اور نواز شریف نے اتفاق کیا ہے کہ جی ایچ کیو سے جو نام انہیں موصول ہوں گے ان میں سے سینئر موسٹ کو آرمی چیف تعینات کردیا جائے گا۔
اس میں ایک نقطہ ابھی بھی غیر واضح ہے۔ اس میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ پاک فوج میں اس وقت جو جرنیل سینئر موسٹ ہے اسے آرمی چیف لگا دیا جائے گا، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ جو نام موصول ہوں گے ان میں سے سینئر موسٹ کو آرمی چیف تعینات کردیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف کی تعیناتی اور ن لیگی ادوار میں سنیارٹی پر عملدرآمد
موجود آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ پر 29 نومبر کو چین آف کمانڈ کی تبدیلی کی تقریب ہوگی جہاں روایتی طور پر سابق آرمی چیف اپنی چھڑی نئے آرمی چیف کو پیش کریں گے اور پھر ایک نئے دور کا آغاز ہوجائے گا۔
اس وقت کسی بھی نام کے فائنل ہونے کا کوئی دعوٰی نہیں کرسکتا ، مگر سنیارٹی لسٹ میں کون شامل ہے اس پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جاسکتی ہے۔
جرنیلوں کی سینیارٹی کا کیسے تعین کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے آرمی ایکٹ میں جو بتایا گیا ہے اس کے مطابق کسی بھی افسر کی لانگ کورس میں سینارٹی ملٹری اکیڈمی کاکول سے پاسنگ آؤٹ کے موقع پر الاٹ ہونے والے نمبر جسے پاک آرمی یا پی اے کہا جاتا ہے کی بنیاد پر طے کی جاتی ہے۔
لیفٹینٹ جنرل عاصم منیر
غیر مستند انداز میں لیفٹینٹ جنرل عاصم منیر کا نام نئے آرمی چیف کےلئے زبان زد عام ہے مگر ان کا پروفائل کیا کہتا ہے اس کا جائزہ لینا ہوگا۔
اگرچہ لیفٹینٹ جنرل عاصم منیر موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے دو روز قبل 27 نومبر کو اپنی مدت ملازمت مکمل کرکے ریٹائر ہوجائیں گے، لیکن روایت کے مطابق اگر وزیراعظم ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے پہلے ان کا نام نئے آرمی چیف کےلئے منظور کرلیتے ہیں تو وہ اس عہدے پر آئندہ تین سالہ مدت کے لئے اہل ہوجائیں گے۔
لیفٹینٹ جنرل عاصم منیر نے آفیسرز ٹریننگ سکول سے فوج کی فرنٹیر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا تھا۔ وہ آرمی چیف یا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی دونوں عہدوں کےلئے اہل ہوسکتے ہیں.
لیفٹننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا
لیفٹینٹ جنرل عاصم منیر کے بعد سینئر موسٹ ساحر شمشاد مرزا سینئر شمار ہوں گے۔
سندھ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے ساحر شمشاد مرزا اس وقت ٹین کور، جسے راولپنڈی کور بھی کہا جاتا ہے کی کمان کر رہے ہیں۔
یہ فوج کی سب سے بڑی کور ہے جو کشمیر اور سیاچن جیسے علاقوں کی نگرانی کرتی ہے۔
اس سے پہلے وہ فوج کے اہم عہدے یعنی بطور چیف آف جنرل سٹاف تعینات رہے ہیں۔
وہ اپنے کیریئر میں تین بار بطور لیفٹیننٹ کرنل ، بریگیڈیئر اور پھر بطور میجر جنرل ملٹری آپریشنز یعنی ایم او ڈائریکٹوریٹ میں تعینات رہے۔
وہ وائس چیف آف جنرل سٹاف بھی رہے جو ملٹری آپریشنز اور ملٹری انٹیلی جنس کی نگرانی کرتا ہے۔ جس کے بعد وہ چیف آف جنرل سٹاف بنے۔
لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس
بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے لیفٹینٹ جنرل اظہر عباس سینیارٹی میں لیفٹینٹ جرنل ساحر شمشاد مرزا کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں۔ وہ اس وقت فوج کے اہم ترین عہدوں میں سے ایک یعنی چیف آف جنرل سٹاف کے طور پر تعینات ہیں۔
اس سے قبل انہوں نے بطور کور کمانڈر ٹین کور کمان کی ہے۔
اظہر عباس بطور میجر جنرل کمانڈنٹ انفنٹری سکول تعینات رہے جبکہ مری کے جی او سی کے عہدے پر بھی خدمات دے چکے ہیں۔
بطور لیفٹیننٹ جنرل وہ ڈائریکٹر جنرل جوائنٹ سٹاف رہے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود
اگرچہ نعمان محمود سینیارٹی میں تیسرے نمبر پر ہیں مگر ایک مضبوط کیریئر کے حامل ہیں۔ فوج میں انہیں خاص طور پر پاکستان کی مغربی سرحد کا ماہر مانا جاتا ہے۔
بلوچ رجمنٹ کے لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود اس وقت نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پریذیڈنٹ ہیں۔ جبکہ اس سے قبل وہ پشاور کے کور کمانڈر تعینات رہے ہیں۔
وہ بریگیڈئیر کے طور پر الیون کور میں چیف آف سٹاف رہے، بطور میجر جنرل انہوں نے شمالی وزیرستان میں ڈویژن کی کمان سنبھالی اور افغان سرحد کے ساتھ باڑ لگانے کے منصوبے کی نگرانی کی۔
خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی میں بھی تجزیاتی ونگ کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔ جبکہ لیفٹیننٹ جنرل کے طور آئی جی سی اینڈ آئی ٹی رہے۔
لیفٹینٹ جنرل فیض حمید
سینارٹی کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر ہیں اور ان دنوں کور کمانڈر بہاولپور خدمات دے رہے ہیں۔ اس سے قبل کورکمانڈر پشاور اور آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔
ان کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے ہے۔ وہ اُس وقت جنرل قمر جاوید باجوہ کے چیف آف سٹاف تھے جب جنرل باجوہ ٹین کور کمانڈ کر رہے تھے۔
بطور میجر جنرل انہوں نے پنوں عاقل کی ڈویژن کی کمانڈ کی۔ وہ آئی ایس آئی میں کاؤنٹر انٹیلیجنس سیکشن کے ڈائریکٹر جنرل رہ چکے ہیں اور آئی ایس آئی کی سربراہی سے قبل کچھ ہفتوں کے لیے ایجوٹنٹ جنرل کے عہدے پر بھی فائز رہے تھے۔
لیفٹننٹ جنرل محمد عامر
ان کا نام سینارٹی لسٹ میں پانچویں نمبر پر ہے۔ آرٹلری سے تعلق رکھتے ہیں اور سابق صدر آصف علی زرداری کے ملٹری سیکرٹری بھی رہے ہیں۔
وہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ڈائریکٹر جنرل سٹاف ڈیوٹیز تھے اور آرمی چیف سیکرٹریٹ کے امور کی نگراتی کرتے تھے۔ بطور میجر جنرل انہوں نے لاہور ڈویژن کمانڈ کی۔
اس وقت وہ گجرانوالہ کور کی کمان کر رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ جی ایچ کیو میں ایجوٹنٹ جنرل تھے.
اس اہم تعیناتی کے بارے میں جتنے منہ اتنی باتیں ہورہی ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کے لندن میں قیام بڑھانے کو بھی اسی اہم تعیناتی پر مزید مشورے کو وجہ قرار دیا گیا ہے۔
اس وقت اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین بار بار کسی میرٹ کی بات کررہے ہیں۔ مگر ایک بات طے ہے کہ موصول ہونے والی فہرست میں سے نام کے انتخاب کا آئینی اختیار وزیراعطم ہی کے پاس ہے۔
اگر روایت سے ہٹ کر موجودہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے دو روز قبل ریٹائر ہونے والے لیفٹینٹ جرنل عاصم منیر کو ایکسٹینشن نہیں دی جاتی اور فہرست میں پانچویں نمبر پر آنے والے کسی جرنیل کا نام بھی منتخب نہیں کیا جاتا تو پھر پہلے دو بڑے عہدوں کےلئے لیفٹینٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا اور لیفٹینٹ جنرل اظہر عباس کے نام سنیارٹی کے میرٹ پر رہ جاتے ہیں۔
لیکن ماضی کے تجربات دیکھیں تو وزیراعظم کے اختیارات میں کوئی بات مانع نہیں ہے کہ وہ کسی سینئر یا اس سے جونیئر کے نام قرعہ فال نکال دیں۔
Comments are closed on this story.