ہندوستان کی ”الیومناتی“ اور ان کی ”نو خفیہ کتابیں“
سیکریٹ سوسائٹیز (خفیہ معاشروں) کے خیال کی دلچسپیوں نے طویل عرصے سے ہم سب کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے اور اس کی ایک وجہ ان کی پراسراریت ہے۔
ان سیکریٹ سوسائٹیوں سے جڑے عالمی تسلط، خفیہ طاقت اور علم کے پراسرار نظریات بحیثیت انسان ہماری نفسیات کو سب سے زیادہ متاثر کرتے ہیں۔
ایسے خفیہ گروہوں کے وجود کے خیالات کی کوئی کمی نہیں ہے، جن میں الیومناتی (Illuminati) سب سے زیادہ قابلِ ذکر ہے۔
بلاشبہ، آپ موجودہ دور کی الیومناتی سے کچھ نہ کچھ تو واقف ہوں گے ہی، کیونکہ اس پر لکھی گئی لاتعداد کتابوں میں انہیں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اور اب تو سوشل میڈیا پر اکثر ہی ان کے چرچے ہوتے رہتے ہیں۔
لیکن اس سے بہت پہلے ایک اور خفیہ معاشرہ تھا جس کے بارے میں شاذ و نادر ہی بات کی جاتی تھی اور کی جاتی رہی ہے۔
ایک ایسی سوسائٹی جس کی بنیاد دو ہزار سال سے بھی زیادہ پہلے تقریبا 270 قبل مسیح میں ہندوستان کے کلینگا سامراج پر راج کرنے والے موریہ خاندان کے بادشاہ اشوکا نے رکھی تھی۔
اشوکا کی سیکریٹ سوسائٹی کے ممبران ہندوستان کے لیے بالکل ویسے ہی تھے جو مغربی دنیا کے لیے آج الیومناتی ہیں۔
لیکن یہ اس سے بھی کہیں زیادہ دلچسپ اور وسیع ہے۔
کہانی یہ ہے کہ اپنے زمانے کے ایک طاقتور اور بے رحم بادشاہ اشوکا نے کلینگا جنگ کے میدان میں ہونے والے قتل عام کو دیکھا جس میں تقریباً ایک لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے تھے۔
اس خون خرابے کے بعد اس میں ایک ڈرامائی تبدیلی آئی اور اس کا دل پھر گیا۔
اشوکا نے محسوس کیا کہ بادشاہ کی حقیقی فتح صرف شہر جیتنا نہیں بلکہ فرض اور منصفانہ قوانین کی پابندی سے لوگوں کے دل جیتنا ہے اور اسی وجہ سے اس نے بدھ مت کے اصولوں کو اپنایا۔
اشوکا کو لگتا تھا کہ کہ اگر وہ طاقت جو اس نے اپنے جنگ و جدل والے دنوں سے حاصل کی تھی، غلط ہاتھوں میں چلی گئی تو دنیا کو بہت حد تک نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اور اس طرح جنم ہوا نو نامعلوم افراد پر مشتمل اس خفیہ سوسائٹی کا۔
ایچ جی ویلز نے اپنی کتاب ”آؤٹ لائن آف ورلڈ ہسٹری“ میں لکھا، ’تاریخ کی فائلوں میں جمع ہونے والے بادشاہوں کے ہزاروں ناموں میں، اشوکا کا نام ستارے کی طرح اکیلا ہی چمکتا ہے۔‘
ان نو نامعلوم اشخاص میں سے ہر ایک کو اشوکا نے خفیہ علم میں اضافے ، تحفظ اور نادانوں کے ہاتھ میں جانے سے روکنے کی ذمہ داری سونپی۔
ان نو افراد نے اپنی ذمہ داریوں اور تحقیق کو ایک ایک کتاب کی شکل میں مرتب کیا اور اس طرح دنیا کی خفیہ ترین نو کتابیں وجود میں آئیں۔
کہا جاتا ہے کہ ان کتابوں میں اعلیٰ ترین علمیات، حتیٰ کہ اینٹی گریویٹی اور ٹائم ٹریول کے قیمتی رازوں کے بارے میں معلومات موجود تھیں، جو بنی نوع انسان کو ترقی اور ارتقاء کی راہ پر گامزن کر سکتے تھے، لیکن اگر غلط ہاتھوں میں چلے جاتے تو انسانیت کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی طاقت رکھتے تھے۔
دنیا کو ان نامعلوم افراد کے وجود کے بارے میں 1923 میں ٹالبوٹ منڈی کی کتاب ”The Nine Unknown Men“ کے زریعے معلوم ہوا، جو اس نے برطانوی پولیس فورس کے ایک رکن کے ذریعے حاصل کی جانے والی معلومات کی بنیاد پر لکھی تھی۔ اس افسر نے 25 سال تک ہندوستان کی خدمت کی۔
اپنی کتاب میں، منڈی نے وضاحت کی کہ یہ نو اراکین اب بھی موجود ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے پاس ایک کتاب ہے جو مسلسل اپ ڈیٹ ہوتی رہتی ہے اور اس میں کسی خاص سائنسی موضوع کے تفصیلی بیانات ہوتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ ان نو مردوں نے بہت کم لیکن اپنے آپ کو دنیا کے دانشمندوں کے سامنے ظاہر کیا تاکہ ان تک علم منتقل کیا جا سکے، اور یہ سب کچھ انسانیت کے عظیم مقصد کے لیے ہے۔
جب بھی ان نو افراد میں سے کوئی طبعی یا ناگہانی موت مرتا ہے تو اس کی جگہ ایک نئے ممبر کو لایا جاتا ہے جو اس کتاب میں اضافے اور اس کی حفاظت کے لائق ہو، اور اس طرح یہ سوسائٹی ہزاروں سالوں سے چلتی آرہی ہے۔
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ افواہ بھی پھیلائی گئی کہ ہندوستانی سائنس دان جگدیش چندر بوس اور وکرم سارا بھائی، جو کہ خفیہ سوسائٹی کے پرجوش ماننے والے تھے، درحقیقت اس معاشرے کے رکن تھے۔
نو خفیہ کتابیں اور نو خفیہ علم
نفسیاتی جنگ اور ہیومن برین واش
پہلی کتاب میں پروپیگنڈہ اور نفسیاتی جنگ کے حربوں کے بارے میں معلومات دی گئی ہیں کہ انہیں کس طرح لاگو کرنا ہے اور کس طرح بچنا ہے۔ ان میں بنیادی طور پر یہ سکھایا گیا کہ رائے عامہ کو کیسے اپنے مطابق ڈھالا جائے۔
منڈی کے مطابق ”تمام علوم میں سب سے زیادہ خطرناک رائے عامہ کو قابو اور تبدیل کرنا ہے کیونکہ یہ کسی کو بھی پوری دنیا پر حکومت کرنے کے قابل بناسکتا ہے۔“
موت کا علم
دوسری کتاب فزیولوجی کے بارے میں تھی جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح صرف چھونے سے کسی بھی انسان کو مارا جاتا ہے۔ اسے ’موت کے لمس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک ایسا تصور جو یہ سکھاتا ہے کہ کس طرح ایک سادہ سے لمس سے انسان کی نبض کو پلٹنا ہے اور اسے مارنا ہے۔
اس کے علاوہ اس میں انسانی جسم کے بارے میں انتہائی تفصیلی معلومات ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ’جوڈو‘ کا مارشل آرٹ اس دوسری کتاب کے مطالعے کا نتیجہ ہے۔
مائیکروبائیولوجی
تیسری کتاب بائیو ٹیکنالوجی اور مائکروبائیولوجی سے متعلق ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ہیضے کی ویکسین اس علم سے آئی ہے جو اس کتاب میں محفوظ ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کتاب میں ایسے وائرس اور بیماریاں بنانے کا علم موجود ہے جو پوری دنیا کے جانداروں کا خاتمہ ایک ساتھ کرسکتی ہیں۔
الکیمی
چوتھی کتاب کیمیا اور دھاتوں کی تبدیلی پر مرکوز ہے۔ الکیمی میں ایک دھات کو دوسرے میں بدلنے اور ایسے زہر بنانے کے بارے میں بتایا گیا ہے جس کا کوئی توڑ نہ ہو۔ کہتے ہیں کہ اس علم کے زریعے کسی بھی دھات کو سونے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ زمانہ قدیم میں ہندوستان کے مندروں میں اتنا سونا ہوا کرتا تھا جس کی کوئی مثال نہ تھی۔
رابطہ
پانچویں کتاب انسان اور ماورائے زمین یعنی خلائی مخلوق دونوں کے ساتھ بات چیت کے بارے میں تھی، اس کتاب میں وہ خفیہ زبانیں اور ان کا علم موجود تھا جن کے زریعے انسان کسی بھی خلائی مخلوق یا کسی بھی قوم کے انسان سے بات چیت کرسکتا تھا۔
اس خفیہ علم نے اس حقیقت کو ثابت کیا کہ خفیہ سوسائٹی کے یہ نو نامعلوم افراد خلائی مخلوق کی موجودگی پر یقین رکھتے ہیں۔
مثبت اور منفی کشش ثقل
چھٹی کتاب کشش ثقل کے رازوں پر مشتمل تھی اور اس میں ’ومانیکا شاشترا‘ کے تصور کی وضاحت کی گئی تھی، جس میں ویماناس (ہوائی جہاز) بنانے کا فن سکھایا گیا تھا، ایسے جدید جہاز جنہیں اکثر یو ایف اوز کہا جاتا ہے۔
علمِ کائنات، وقت اور خلاء
ساتویں کتاب میں کائنات اور کاسموگنی کے معاملات درج تھے، کامسوگنی سائنس کی وہ شاخ ہے جو کائنات کی ابتداء بالخصوص نظام شمسی سے متعلق ہے۔ اس کتاب میں وقت کے سفر کا راز پوشیدہ ہے۔
علمِ نور
آٹھویں کتاب روشنی اور اس کے علم پر مبنی ہے جس میں روشنی کی رفتار کو کنٹرول کرنے اور اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔
علمِ عمرانیات
نویں اور آخری کتاب میں سماجیات کے بارے میں بحث کی گئی ہے، جس میں معاشروں کے ارتقاء کے اصول اور ان کے زوال کی پیش گوئی بھی شامل ہے۔
تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ خفیہ معاشروں کا خیال ہمیشہ اس طرح کے علم اور ان کے تحفظ کے بارے میں رہا ہے۔
بلاشبہ، ’دیکھنا ہی ماننا ہے‘ کے خیال کے پیش نظر یہ باتیں صرف افسانوی لگتی ہیں۔
لیکن ”نیو ورلڈ آرڈر“، دنیا کو قابو کرنے کی مغربی خواہش اور چند خاندانوں کی دنیاوی امور پر دسترس اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ بلاشبہ خفیہ معاشرے حقیقت ہیں۔
Comments are closed on this story.