Aaj News

جمعرات, نومبر 21, 2024  
18 Jumada Al-Awwal 1446  

وزیراعظم کے دورہ چین کے پس پردہ عوامل کیا ہیں

دورے کو تین تناظر میں دیکھنا ہوگا، سی پیک کا اگلا مرحلہ بھی شروع ہو رہا ہے
اپ ڈیٹ 04 نومبر 2022 05:27pm
وزاعظم شہباز شریف نے صدر شی جن پنگ کے ساتھ اپنی ملاقات کو انتہائی تعمیری قرار دیا۔ فوٹو ٹوئیٹر
وزاعظم شہباز شریف نے صدر شی جن پنگ کے ساتھ اپنی ملاقات کو انتہائی تعمیری قرار دیا۔ فوٹو ٹوئیٹر

ڈاکٹر عمار ملک امریکہ میں مقیم ایک سینیئر محقق ہیں اور سی پیک پر بہت کام کر چکے ہیں۔ وہ اس وقت بین الاقوامی ترقی پر تحقیق کرنے والی تنظیم AidData سے وابستہ ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ امریکہ پر آج ڈیجیٹل کے لیے انہوں نے یہ تجزیہ پیش کیا۔

وزیراعظم شہباز شریف کا حالیہ دورہ چین سی پیک کے حوالے سے بہت اہم تھا تاہم ان کے اس دورے اور صدر شی جن پنگ سے ملاقات کو تین تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

چین کی پوزیشن

چین کی کمیونسٹ پارٹی کے اجلاس میں صدرشی جنگ پنگ نے تیسری مرتبہ اپنے آپ کو صدر منتخب کرالیا ہے اور وہ اب چین کی تاریخ کے ایک انتہائی اہم لیڈر بنتے نظر آرہے ہیں چئیرمین ماؤ اور باقی اہم لیڈران کی طرح۔

اس ہفتے شہباز شریف کے علاوہ تنزانیہ، ویتنام اور جرمنی کے لیڈران بھی بیجنگ کا دورہ کریں گے۔ چین کیلئے یہ بڑا اہم وقت ہے دوست ممالک کو اکٹھا کرکے دنیا کو پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ نئے دور میں چین دنیا کے ساتھ اپنے روابط مزید مضبوط کرے گا۔

پاکستان کا نقطہ نظر

پاکستان کیلئے ظاہر ہے یہ وقت بہت اہم ہے کیونکہ پی ڈی ایم حکومت بہت سخت کوشش کر رہی ہے کہ سی پیک کو دوبارہ سے فعال بنایا جائے۔ بہت سارے قرضے ہیں جن کو رول اوور کرنے کی ضرورت ہے، جو قرضے چین سے پاکستان نے لئے ہوئے ہیں جو ڈیپازٹ لئے ہوئے ہیں ان کی مدت بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ظاہر ہے پاکستان کی حکومت اس وقت لانگ مارچ کی طرف سے بھی بہت پریشر میں ہے اور اقتصادی طور پر بھی اور اگلے سال جون جولائی کے مہینے میں اس حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد پاکستان نے الیکشن کی طرف جانا ہے۔ تو یہ بہت ہی اہم وقت ہے۔

عالمی تناظر

اور اس کے علاوہ دورے کے تیسری جہت دنیا کی طرف سے ہے۔ پاکستان اور امریکا اپنے تعلقات کو دوبارہ سے ری انگیجمنٹ کی طرف لے کر جارہے ہیں، جیسے کہ ہم نے ابھی پچھلے کچھ ہفتوں میں دیکھا اور اس تناظر میں بہت سے لوگ واشنگٹن میں جہاں میں رہتا ہوں یہ سوال کر رہے ہیں کہ آخر چین کو پاکستان میں ایسا کیا نظر آرہا ہے کہ چین بہت سارے مسائل کے باوجود، سی پیک کے سلو ہونے کے باوجود، چینی لوگوں پر حملے ہونے کے باوجود، پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید بڑھاتا ہوا چلا جارہا ہے اور سی پیک کو ”ٹو بِگ ٹو فیل“ کہا جارہا ہے۔

تو اس لحاظ سے بھی دنیا اس دورے کا بہت انتظار کر رہی تھی اور یہ دیکھنا چاہ رہی تھی خاص طور پر جو قرضوں کا اور اقتصادی شراکت داری ہے اس کے اوپر کیا ڈیولپمنٹ ہوتی ہیں۔

چونکہ چین نے پچھلے کچھ مہینے میں سری لنکا اور زیمبیا میں اپنے قرضوں کو ری شیڈول کرنے اور ان ممالک کو ریلیف دینے کے لیے مذاکرات میں مغربی طاقتوں امریکا ، فرانس وغیرہ اور قرض دینے والوں کو شریک کیا لہذا دیکھنے کی ضرورت یہ ہے کہ آنے والے ہفتوں میں کہ کیا وہ پاکستان کے ساتھ بھی اس قسم کی پارٹنر شپ کریں گے قرضوں کے اوپر یا نہیں کریں گے۔

دورے کا ایجنڈا

دوسری چیز جو میں سمجھتا ہوں بہت اہم ہے وہ اس دورے کا ایجنڈا ہے۔ پاکستان کی طرف سے سب سے اہم شارٹ ٹرم آئٹم جو ہے وہ بیلنس آف پیمنٹس کے ڈیپازٹس سینٹرل بینک نے لئے ہیں اس میں سیف ڈیپازٹس بھی شامل ہیں اور چینی بینکوں کی طرف سے بھی اس سال بھی ہمیں کچھ ڈیپازٹس موصول ہوئے ہیں ان کی ایکسٹینشن (توسیع) کے بارے میں بات چیت ہوگی اور دیکھنا یہ ہے کہ کیا چینی حکام ان قرضوں کو اپروو کر دیتے ہیں، یا وہ یہ ڈیمانڈ کرتے ہیں پاکستان ان قرضوں کو واپس کرے ۔ کیونکہ پاکستان کی اقتصادی صورتحال ایسی نہیں ہے کہ ہم اتنے بڑے بڑے قرضوں کو واپس کرسکیں، جو کہ ایک سال یا دوسال کی مدت کیلئے دئے جاتے ہیں، اور ان کا واپس کرنے کا وقت قریب آتا جارہا ہے۔ تو یہ سب سے بڑا آئٹم ہے۔

اس کے علاوہ ظاہر ہے 11.3 ارب ڈالرز کے نئے منصوبوں کے اوپر بات چیت ہو رہی ہے۔ مین لائن ون جو پشاور سے کراچی تک جانے والیے ریل نظام کی اپ گریڈنگ کا معاملہ ہے وہ ایک بہٹ بڑا پروجیکٹ ہے، کراچی سرکولر ریل ہے، پھر کچھ انرجی کے شعبے میں بھی پراجیکٹس ہیں جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ شاید بات آگے بڑھے گی۔

لیکن ابھی تک بیجنگ سے جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں ان کے مطابق کوئی بڑی اناؤنسمنٹ یا بڑی کمٹمنٹ یا بڑے معاہدوں پر دستخط ان پروجیکٹس پر ہمیں نظر نہیں آرہے۔ اور میرا یہ خیال ہے کہ چونکہ پاکستان میں سیاسی طور پر عدم استحکام ہے اور پاکستان میں اگلے سال الیکشن کا بھی وقت آنا ہے۔ یہ بہت ہی بڑے منصوبے ہیں ، یہ دس دس بلین ڈالرز کے منصوبے ہیں اور چینی حکام کافی محتاط طریقے سے اس وقت آگے بڑھیں گے اور پاکستانی سائیڈ پر بھی کافی کوشش کی جارہی ہے کہ ان کے اپروولز وغیرہ حکومتی سطح پر لے لئے جائیں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اس آئٹم پر کوئی پیش رفت ہوگی۔

سی پیک کا اگلا مرحلہ

تیسرا جو لانگ ٹرم آئٹم جو بہت اہم ہے جس کا ذکر اب کیا جارہا ہے پاکستان میں اس نئی حکومت کے اندر وہ سی پیک کا سیکنڈ فیز ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے جو ارلی ہارویسٹ (early harvest) کے انفرا اسٹرکچر کے پروجیکٹس وہاں لگوانے تھے، پاکستان میں سڑکوں کا نظام بہتر کرنا تھا، پاکستان میں بجلی کا نظام بہتر کرنا تھا وہ پروجیکٹس اب کافی حد تک پایہ تکمیل تک پہنچ چکے ہیں اور مزید بھی آتے جارہے ہیں۔ لیکن اصل جو اس کا فائدہ ہونا تھا ہماری معیشت کو وہ فیز ٹو میں ہونا تھا اور فیز تو میں ہماری امید تھی کہ چین کی طرف سے ہمیں پرائیویٹ سیکٹر سے فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ موصول ہوگی، پاکستان میں چینی کمپنیاں کارخانے لگائیں گی، یہاں پر ینگ پاکستانی لوگوں کیلئے نوکریوں کا انتظام ہوگا۔ یہ سارا کچھ ہمیں ابھی تک ہوتا ہوا نظر نہیں آیا۔ عمران خان کے دور میں بھی ہم نے دیکھا کہ سی پیک اتھارٹی نے ایک پچ بک تیار کی ، فروری میں جب عمران خان صاحب چین میں گئے تو وہاں پر انہوں نے ملاقاتیں بھی کیں چینی کمپنیوں کے ساتھ، آج بھی شہباز شریف صاحب نے ایسی ملاقاتیں کی ہیں تو اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا چینی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گی یا نہیں کریں گی؟ اس کا دارومدار میرے خیال میں چین کی حکومت پر کم اور پاکستانی سائیڈ پر زیادہ ہے۔ کیا ہم ان کو وہ سہولیات میسر کر سکتے ہیں، کیا ورک فورس مہیا کر سکتے ہیں یا ہم ان لوگوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے کچھ مراعات دے سکتے ہیں، جیسے ٹیکس ریلیف دے سکتے ہیں، سڑکیں بہتر کرستے ہیں، سستی بجلی دے سکتے ہیں، کیا ایسی چیزیں ہیں جو پاکستان ان کو مہیا کرسکتا ہے جس کے بعد وہ وہاں آئیں دبئی، کمبوڈیا یا بنگلا دیش جانے کے بجائے پاکستان میں سرمایہ کریں ۔

تو میرے خیال میں اس دورے میں ہمیں اس حوالے سے کوئی خاص ڈیولپمنٹ نظر نہیں آئے گی۔ یہ ایک لانگ ٹرم چیز ہے جس کیلئے ہمیں انتظار کرنا ہوگا غالباً اگلی حکومت کیلئے۔

اگر پاکستان اور چین کے تعلقات کو اور سی پیک کو ایک بڑے تناظر میں دیکھیں تو مجھے دو تین بڑے بڑے چینجز نظر آتے ہیں، سب سے پہلا چیلنج یہ ہے کہ کیا پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں اسٹیبلشمنٹ اور سیاست دانوں میں بھی ہمیں کچھ ٹینشن نظر آرہی ہے اور موجودہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بھی بے انتہا کشیدگی نظر آرہی ہے اور کچھ عدم استحکام بھی نظر آرہا ہے الیکشن کے حوالے سے کہ آیا الیکشن ٹائم پر ہوں گے جلدی ہوں گے کیسے ہوگا۔ اس موقع پر کیا چینی حکام کوئی بڑی سرمایہ کاری پاکستان میں کرنے کا فیصلہ کریں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہوگا میرے خیال میں صوت حال ایسی ہی چلتی رہے گی۔ لیکن دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ کیا ایسا ہوگا یا نہیں۔

دوسری بات یہ کہ پاکستان کیلئے جو سب سے بڑا چیلنج ہے وہ یہ کہ سی پیک کے فیز ٹو کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے ہماری حکومت ایسے اقدامات کر سکتی ہے، کیا اصلاحات کر سکتی ہے، ون ونڈو آپریشن وغیرہ کا نظام کر سکتی ہے، ایسی ورک فورس دے سکتی ہے، ہماری ڈالر کی قیمت میں استحکام پیدا کر سکتی ہے، سیکیورٹی کی صورتحال بہتر کرسکتی ہے، کیا ایسے اقدامات پاکستانی حکومت کرسکتی ہے کہ چین کی طرف سے فیز ٹو میں زیادہ سے زیادہ تیزی آئے۔ میرے خیال میں یہ بہت ہی اہم سوال ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ ہماری سائیڈ سے کس قسم کے اقدامات لئے جاتے ہیں اور پھر چین اس پر کیسے رسپانڈ کرتا ہے۔

جیسے آپ جانتے ہیں دنیا بھر میں شرح سود کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہورہا ہے اور آج سے پانچ سے دس سال پہلے کے مقابلے میں آج کوئی بھی قرضہ لینا پاکستان جیسے ملک کیلئے کہیں زیادہ مہنگا ہے اس شرح سود سے جو ہمیں آج سے پانچ سات سال پہلے ملا کرتی تھی۔ اور اس کا اثر آپ ابھی سے دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کے توانائی کے شعبے میں جہاں چینی سرمایہ کاروں نے اور باقی سرمایہ کاروں نے پیسہ لگایا ہے وہاں پر چونکہ ہمارے روپے کی قدر بہت گرگئی ہے ، ہم بجلی کے بل روپوں میں وصول کرتے ہیں اور بجلی کی رسد کا نظام بھی اتنا اچھا نہیں ہے تو حکومت کے پاس اب ڈالروں میں سرمایہ کاروں کو ریٹرن دینا بہت مشکل ہوتا جارہا ہے۔ تو پاکستان کو بہت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے کہ آئندہ آنے والے سالوں میں مہنگے قرضے لینے پر بہت دھیان کرنا ہوگا اور یہ ضروری ہے کہ جہاں بھی مہنگا قرضہ لیا جائے اس کو چکانے کرنے کا جو فارمولہ اور تیاری ہے وہ بہت اچھا ہونا چاہیے۔