Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

آزادی مارچ کو اسلام آباد پہنچانے میں تاخیر کی حکمت عملی کیا ہے

پی ٹی آئی رہنماؤں نے مارچ کی سست رفتاری کی صرف ظاہری وجوہات بیان کی ہیں
اپ ڈیٹ 02 نومبر 2022 08:36am
عمران خان منگل یکم نومبر کو مارچ کے پانچویں دن کے آغاز پر۔ فوٹو پی ٹی آئی ٹوئیٹر
عمران خان منگل یکم نومبر کو مارچ کے پانچویں دن کے آغاز پر۔ فوٹو پی ٹی آئی ٹوئیٹر

عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کا ”حقیقی آزادی مارچ“ لاہور سے اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہے لیکن مارچ کو اسلامم آباد پہنچنے میں اب پہلے کی نسبت دگنا یا اس سے بھی زیادہ وقت لگے گا۔

پی ٹی آئی سربراہ عمران خان نے پیر 31 اگست کو کہا کہ مارچ کو اسلام آباد پہنچنے میں نو دس دن لگیں گے۔ فواد چوہدری نے بھی اینکر پرسن ماریہ میمن کو انٹرویو میں کہا کہ مارچ 11 نومبر تک اسلام آباد پہنچنے گا۔

کئی لوگوں کے لیے یہ سوال اہم ہے کہ مارچ کو اسلام آباد پہنچنے میں اتنی تاخیر کیوں ہو رہی ہے یا پھر اتنی تاخیر کیوں کی جا رہی ہے۔ اور وہ اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ظاہری وجوہات

فواد چوہدری اپنے انٹرویو میں اور منگل کو صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں کہہ چکے ہیں کہ مارچ کے ساتھ ہزاروں لوگ چل رہے ہیں۔ ایسے میں کنٹینر کی رفتار تیز نہیں کی جاسکتی کیونکہ حادثات کا خدشہ ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ سیکورٹی خدشات کے سبب پی ٹی آئی قیادت نے صرف دن میں مارچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ رات ہوتے ہی مارچ روک دیا جاتا ہے اور دوسری صبح دن چڑھنے کے بعد پھر روانگی ہوتی ہے۔

دوسرے روز یہ روانگی بھی علی الصبح نہیں ہوتی بلکہ دوپہر کے بعد ہوتی ہے۔ گویا مارچ دوپہر ایک بجے سے شام 7 بجے کے درمیان سفر کرتا ہے۔ اس دوران عمران خان تقریباً تین مقامات پر خطاب کرتے ہیں۔

اس صورت حال میں مارچ کی رفتار اس سے زیادہ تیز نہیں ہوسکتی جتنی کہ یہ ہے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے جاری مارچ کا ترمیم شدہ شیڈول

پس پردہ وجوہات

اوپر جو بیان کیا گیا وہ مارچ کی سست رفتاری کی ظاہری وجوہات ہیں۔ لیکن کچھ ایسی وجوہات بھی ہیں جو دکھائی نہیں دے رہیں۔ البتہ ان کا ذکر ضرور سنا جا رہا ہے۔

سب سے زیادہ سرگوشیاں یہ ہو رہی ہیں کہ عمران خان آرمی چیف کے تقرر کا انتظار کر رہے ہیں۔ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 29 نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے حامی اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب مخالفین کا دعویٰ یہ ہے کہ عمران خان اپنی مرضی کے آرمی چیف کے تقرر کے لیے اسلام آباد پر چڑھائی کر رہے ہیں تو پھر تقرری کے انتظار کی منطق سمجھ میں نہیں آتی۔

تاہم یہ منطق اس وقت بخوبی سمجھ آجاتی ہے جب ماضی میں ہونے والے لانگ مارچوں کے طریقہ کار اور نتائج کو مد نظر رکھا جائے۔

سادہ لفظوں میں لانگ مارچ وہ گولی ہے جو چل جانے کے بعد کسی کام کی نہیں رہتی۔ اس کی افادیت صرف اس وقت تک ہے جب تک یہ بندوق کے اندر رہتی ہے۔

2008 میں نواز شریف نے وکلا تحریک کے دوران لاہور سے اسلام آباد تک ایک لانگ مارچ کیا تھا۔ اس وقت پنجاب میں حکومت بھی ان کی تھی۔ شام کے بعد مینار پاکستان سے شروع ہونے والا یہ لانگ مارچ اگلے دن دوپہر کے بعد اسلام آباد پہنچا۔

رات کو نواز شریف پارلیمنٹ کے سامنے پہنچ گئے۔ اب خطاب بھی کرنا تھا۔ مسلم لیگ(ن) کے سربراہ اور وکلا قیادت نے خطاب کیا اور پھر مارچ ختم ہوگیا۔

عدلیہ بحالی کے مطالبات حاصل نہیں ہوئے۔ اس کے نتیجے میں وکلا میں مایوسی پھیلی۔

اگلے برس یعنی 2009 میں نواز شریف کو ایک اور مارچ کرنا پڑا۔ اس وقت پنجاب میں گورنر راج لگ چکا تھا۔ نواز شریف کے ساتھ لوگ بھی کافی تھے۔ نواز شریف پیپلز پارٹی کے خلاف غصے سے بھرے تھے۔ مارچ گوجرانوالہ تک پہنچا تو نتیجہ آگیا۔

مارچ منزل پر پہنچ جائے اور اس کے بعد بھی مطالبات حاصل نہ ہوں تو دھرنا دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہتا۔

ماضی میں اسلام آباد میں پہنچنے والے جو مارچ دھرنا دیئے بغیر ختم ہوئے ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ جن مارچز میں دھرنے دیئے گئے وہ کامیاب رہے۔

عمران خان اگر اسلام آباد پہنچ جاتے ہیں اور اس دوران ان کے مطالبات پورے نہیں ہوتے تو انہیں دھرنا دینا پڑے گا۔ حکومت اگر ڈٹ گئی تو یہ دھرنا طویل ہو جائے گا۔ پچھلی بار عمران خان 126 دن کے دھرنے سے بھی حکومت نہیں گرا سکے تھے۔

دوبارہ اتنے ہی یا اس سے زیادہ طویل عرصے تک لوگوں کو اسلام آباد میں بٹھائے رکھنا ان کے لیے آسان نہیں۔ لہذا مارچ کے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے مطالبات منوانا ضروری ہے۔

شرکا کی تعداد سے عمران مطئمن لیکن نظر اسلام آباد پر

ایک اور فائدہ یہ ہے کہ جب تک مارچ منزل تک نہیں پہنچتا، شرکا کی تعداد پر کوئی حتمی بحث نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ عمران خان نے پیر کو ”آج نیوز“ سے بات کرتے ہوئے کہا “ اصل رزلٹ تو اسلام آباد میں ہو گا کیونکہ اصل تو پبلک نے ادھر آنا ہے۔“

مارچ کب اسلام آباد پہنچے گا

آزدی مارچ جمعہ 28 اکتوبر کو لاہور کے لبرٹی چوک سے شروع ہوا تھا اور اسے جمعہ 4 نومبر کو اسلام آباد پہنچنا تھا۔ لاہور سے اسلام آباد کا فاصلہ جی ٹی روڈ کے ذریعے 300 کلومیٹر سے بھی کم ہے۔ لیکن ظاہر ہے جلسے جلوس بالخصوص مارچ عام گاڑیوں کی طرح سفر نہیں کرتے۔ 2008 میں نواز شریف جب دو دن میں مارچ لاہور سے اسلام آباد لے کر پہنچے تو یہی کہا گیا کہ انہوں نے یہ صرف تیزی سے طے کیا ہے۔

لاہور سے اسلام آباد تک مارچ کے لیے تین سے چار دن کا وقت مناسب سمجھا جاتا ہے۔ ایک ہفتے کا وقت بھی کوئی زیادہ نہیں۔

پی ٹی آئی کی جانب سے دیئے گئے نئے شیڈول کے مطابق حقیقی آزادی مارچ اب اگلے جمعہ تک لالہ موسی ہی پہنچ پائے گا۔ جب کہ اتوار سے پہلے اس کا جہلم پہنچنا ممکن نہیں۔

مارج کے اسلام آباد پہنچنے کی تاریخ حتمی نہیں ہے۔ جیسا کہ فواد چوہدری نے بتایا یہ جمعہ 11 نومبر یا ہفتہ 12 نومبر ہوسکتی ہے۔ لیکن عین ممکن ہے کہ اس سے بھی زیادہ تاخیر ہو جائے۔

اس دوران شہباز شریف چین کے دورے سے واپس آچکے ہوں گے اور سیاسی میدان میں بہت کچھ واضح ہو چکا ہوگا۔

عمران خان نے اسٹیبشلمنٹ سے مذاکرات کا مطالبہ کردیا

فی الوقت حکومت عمران خان سے مذاکرات سے انکاری ہے جبکہ عمران خان کہتے ہیں کہ شہباز شریف کے پاس اختیار ہی کیا ہے جو وہ ان سے مذاکرات مانگیں۔ آج نیوز کو ایک انٹرویو میں انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ درمیان میں آکر بیٹھے اور الیکشن کرائے۔

ماضی میں جب جب فریقین نے مذاکرات کی میز پر آنے سے انکار کیا سیانوں نے یہی کہا کہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔

لیکن اب وقت بدل کا دور ہے۔

pti

imran khan

Azadi March Nov2 2022