Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

مچھر کالونی کی جنگل گلی اور دو لاشیں

مچھر کالونی میں تشدد سے قتل ہونے والے افراد کی اندرونی کہانی
اپ ڈیٹ 31 اکتوبر 2022 10:07pm

مچھر کالونی میں ہجوم کی جانب سے قتل کئے جانے والے نجی کمپنی کے انجنیئر اور ڈرائیور کے قتل کے بعد یہ جنگل گلی لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔ وہ جگہ جہاں پولیو کی ٹیمیں، بینک انشورنس کے لوگ تو اپنی جگہ لیکن ڈاکس تھانے کی پولیس بھی نہیں جاتی۔

اس علاقے میں پولیس کے نہ جانے کہ وجہ یا آنکھیں بند کرنے کی کہانی جب کھلتی ہے تو نئے سوال جنم لیتے ہیں، جس کے جواب بھی تلاش کرنے جائیں تو ایک نیا سوال استقبال کرتا ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق اس ”جنگل گلی“ سے ڈاکس پولیس تھانے کو پندرہ لاکھ روپے ماہانہ ملتا ہے۔ جس کی وجہ سے پولیس وہاں نہیں جاتی اور وہاں، ڈفینس، بوٹ بیسن، کلفٹن، ٹاور میں جرائم کرنے والوں کو پناہ ملتی ہے۔

یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جنگل گلی میں رہنے والے منشیات فروشوں کے مختلف علاقوں میں دو سو کے قریب منشیات کے اڈے چلتے ہیں۔ وہ خود جنگل گلی میں رہتے ہیں، جہاں پولیس کی مدد سے انہوں نے اپنا حفاظتی حسار بنایا ہوا ہے۔

اس حسار بنانے میں ایک پولیس افسر کا بہت بڑا کردار ہے جس نے اپنی سروس کا آغاز ہی ڈاکس تھانے کی چوکی فشریز چیک پوسٹ کے انچارج سے کیا۔

اب ڈاکس تھانے کی اصل باگ ڈور سنبھالنے والا پولیس افسر اس کا کرتا دھرتا اور حفاظتی حسار ہے جس کیلئے ان کو ماہانہ پندرہ لاکھ روپے ملتے ہیں۔

جنگل گلی کے اس علاقے میں کوئی کرائم نہیں ہوتا، کیونکہ وہ ہے ہی کرمنل کی پناہ گاہ، جہاں کرمنل زیادہ رہتے ہیں وہاں کرائم نہیں ہوتا۔

وہاں موجود ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ، کرمنل کو تحفظ دینے والے ہوتے ہیں۔

اس علاقے میں بچوں کے اغوا کا کوئی ایک واقعہ بھی نہیں ہوا، تو پھر وہاں کے لوگوں کو ہوا کیا کہ دو زندہ انسانوں کوتشدد کرکے قتل کردیا؟

بتایا جاتا ہے کہ آئی جی سندھ نے صوبے اور خاص طور پر کراچی شہر میں موجود پولیس نظام پر نظر رکھنے کیلئے پولیس میں بھرتیاں کیں اور نئے افسران کو ذمہ داری دی ہوئی ہے کہ وہ علاقہ پولیس کو اطلاع دیئے بغیر وہاں کے حالات کا جائزہ لیں اور انہیں رپورٹ کریں۔

اسی وجہ سے وہاں روایتی پولیس افسروں میں ایک سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے اور انہوں نے کرمنلز کا اطلاع دی ہوئی ہے کہ اب بہت سے معاملات ان کے زیر کنٹرول نہیں، لہٰذا اپنے علاقوں میں مختلف روپ میں آنے والے افراد پر نظر رکھیں۔

جنگل گلی میں موجود ملزمان اب الرٹ ہو گئے ہیں۔ پولیس تو آتی نہیں، ملزمان کے علاوہ یہاں کوئی رہتا نہیں، جو بھی نیا آئیگا، وہ یہاں سے واپس نہیں جائیگا۔

اسی صورتحال کا نشانہ نجی کمپنی کے دو افراد بنے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ دو افراد علاقے میں جیسے ہی داخل ہوئے تو مخبروں نے اس علاقے کے ’بادشاہوں‘ کا اطلاع دی۔ لوگوں نے ان دونوں افراد کو محصور کرکے دو گھنٹے تک بٹھا دیا، ان کی تفتیش ہوتی رہی لیکن اس علاقے کے ’بادشاہ‘ نجی کمپنی کے ملازمین کے جواب سے مطمئن نہیں ہوئے اور مسجد سے اعلان کروایا کہ بچوں کو اغوا کرنے والے پکڑے گئے ہیں۔ حالانکہ اس علاقے سے کبھی بچے اغوا ہی نہیں ہوئے کہ لوگ اس حد تک غصے میں آجائیں اور زندہ انسان کو تشدد کرکے قتل کردیں۔

اس واقعے کی تفتیش پولیس کر رہی ہے لیکن اس میں وہ افسر بھی شامل ہے جو اصل میں اس علاقے کا ڈان ہے۔

لیکن ڈی آئی جی ساؤتھ عرفان بلوچ کے آنے کے بعد اس کے اسکریو کچھ ڈھیلے ہو گئے ہیں۔ وہ یہ سمجھ گیا ہے کہ ان پرنظر رکھی جا رہی ہے اور گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ تفتیش ہو رہی ہے، یہ کہانی ابھی مزید کھلتی جائیگی۔

Telecom Engineer Murder

Machar Colony

Jungle Gali

Mob Lynching