نااہلیت اور قید بھگتنے والے لولا ڈی سلوا پھر برازیل کے صدر بن گئے
برازیل کے صدراتی انتخابات ایک کڑے مقابلے کے بعد دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لولاڈی سلوا نے جیت لیے ہیں۔ لولا ڈی سلوا پہلے بھی برازیل کے صدر رہ چکے ہیں تاہم 2018 کے الیکشن میں وہ کرپشن پر نااہل قرار دیئے جانے اور جیل میں ہونے کے باعث حصہ نہیں لے سکے تھے۔
ان کے مخالف بولسونارو نے فوری طور پر اپنی شکست قبول نہیں کی۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئیٹرز کے مطابق انتخابی نتائج کا اعلان ہونے کے بعد لولا ڈی سلوا نے اعلان کیا کہ وہ ملک میں سیاسی تقسیم ختم کرکے اسے متحد کریں گے۔ انہوں نے کہا، ”میں ساڑھے 21کروڑ برازیلی عوام کا حکمراں ہوں گا۔ صرف ان کا نہیں جنہوں نے مجھے ووٹ دیا۔ یہاں دو برازیل نہیں۔ ہم ایک ملک اور ایک قوم ہیں۔“
برازیل کی سپریم الیکٹرول کورٹ نے اعلان کیا کہ لولا ڈی سلوا نے 50.8 فیصد ووٹ لیے ہیں۔
بولسونارو کے حامیوں میں اشتعال
لولا ڈی سلوا کے مخالف بولسونارو کی شہرت سابق امریکی صدر ٹرمپ جیسی ہے۔ وہ گذشتہ برس سے کہتے آرہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا ان کے خلاف ہیں اور یہ کہ اگر لولا ڈی سلوا کو اقتدار میں واپس لایا گیا تو وہ نتائج قبول نہیں کریں گے۔
روئیٹرز کے مطابق اب بھی امکان ہے کہ وہ انتخابی نتائج کو چیلنج کریں گے۔
بی بی سی نیوز کے مطابق لولا ڈی سلو کی فتح سے بولسونارو کے حامی مشتعل ہوں گے کیونکہ وہ عرصے سے لولا ڈی سلو کو ”چور“ کہتے آرہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ عدالتوں کی جانب سے لولا کی سزا کی منسوخی کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بے گناہ ہیں۔
بولسونارو کے دور میں برازیل کو کئی مسائل کا سامنا رہا۔ کورونا کی وبا کے دوران یہاں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔ اسی عرصے میں برازیل کے ایمزون کے جنگلات کی بڑے پیمانے پر کٹائی بھی شروع ہوئی جس پر دنیا بھر میں تشویش پھیل گئی۔ ایمزون کے جنگلات عالمی حدت کو کنٹرول کرنے کے لیے اہم سمجھے جاتے ہیں۔
اس کے باوجود بولسوناور ایک مقبول امیدوار تھے اور اتوار کو الیکشن کے ابتدائی نتائج ان کے حق میں آرہے تھے۔ ووٹوں کی گنتی کے دوران پانسا پلٹا اور لولا ڈی سلوا آگے بڑھ گئے۔
لولا ڈی سلوا کی قید اور نااہلیت
لولا ڈی سلوا 2003 سے 2010 کے درمیان دو مرتبہ برازیل کے صدر بنے۔
تاہم گذشتہ الیکشن سے وہ اس وجہ سے باہر ہوگئے کہ 2018 میں انہیں ایک تعمیراتی کمپنی سے رشوت لینے کے الزام میں جیل کی سزا ہو گئی تھی۔
لولا ڈی سلوا نے مجموعی طور پر 580 دن جیل میں گزارے۔ بالآخر 2021 میں عدالتوں نے ان کی سزا کالعدم قرار دے دی۔ وہ نہ صرف رہا ہوگئے بلکہ انہیں سیاست میں حصہ لینے کی اجازت بھی مل گئی۔
اتوار کی شب جب ان کی کامیابی کا اعلان ہوا تو لولا ڈی سلوا نے اپنی تقریر ان الفاظ سے شروع کی، ”انہوں ںے مجھے زندہ دفن کرنے کی کوشش کی اور میں پھر آگیا ہوں۔“
لولا ڈی سلوا 77 برس کے ہیں اور ان کا تعلق دائیں بازو سے ہے۔ وہ اسٹیل فیکٹری کے سابق کارکن ہیں۔
جیل جانے کے بعد سیاست میں واپسی پر انہوں نے اپنے ایک مخالف امیدوار کو اپنا نائب صدارتی امیدوار بنایا۔ بی بی سی ورلڈ کے مطابق ”اتحاد“ کی اس حکمت عملی سے انہیں فائدہ ہوا بصورت دیگر وہ کامیاب نہ ہوتے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے لولا ڈی سلو کو کامیابی پر مبارک باد دی ہے اور کہا ہے کہ وہ آزادانہ اور شفاف الیکشن میں منتخب ہوئے ہیں۔
لولا ڈی سلوا کے مخالف 67سالہ بولسونارو سابق فوجی کپتان ہیں۔ وہ دوسری مرتبہ الیکشن لڑ رہے تھے۔ وہ برازیل کے الیکٹرانک ووٹنگ نظام پر کئی مرتبہ شکوک و شبہات کا اظہار کر چکے ہیں۔
Comments are closed on this story.