Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

ارشد شریف قتل پر کینیا میں 34افراد کے بیانات ریکارڈ

تین ناکے قائم تھے، گولیاں چلنے کے 20 منٹ بعد ڈرائیور رکا
اپ ڈیٹ 29 اکتوبر 2022 01:16am
کوینیا شوٹنگ رینج پر لگا ایک بورڈ۔ یہ شوٹنگ رینج وقار احمد کی ملکیت ہے۔
کوینیا شوٹنگ رینج پر لگا ایک بورڈ۔ یہ شوٹنگ رینج وقار احمد کی ملکیت ہے۔

پاکستان کے سینئر صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کے قتل پر کینیا میں 34 افراد کے بیانات ریکارڈ کیے گئے ہیں جو ارشد شریف کی گاڑی پر کینیا پولیس کی جانب سے گولیاں برسائے جانے اور گاڑی کے 20 کلومیٹر دور جا کر رکنے کے عینی شاہد ہیں۔ انہی میں سے بعض نے پولیس کو واقعے کی اطلاع دی۔

یہ انکشافات کینیا کے اخبار دی اسٹار کے چیف کرائم رپورٹر سائرس اومباتی نے اپنی تازہ رپورٹ میں کیے ہیں۔ سائرس شروع سے ہی ایک کیس پر رپورٹنگ کر رہے ہیں۔

ارشد شریف کے قتل کے 34 گواہوں سے پوچھ گچھ پاکستانی تفتیشی ٹیم کے کینیا پہنچنے سے پہلے کی گئی ہے اور ممکنہ طور پر پاکستانی ٹیم کو ان گواہوں تک رسائی دی جائے گی۔ پاکستانی تفتیش کاروں کو جائے وقوعہ تک جانے اور قتل کے وقت ارشد کے ساتھ موجود خرم احمد سے پوچھ گچھ کی اجازت بھی دیئے جانے کا امکان ہے۔

دو رکنی پاکستانی ٹیم جمعہ کو نیروبی پہنچ چکی ہے۔ پاکستانی اہلکاروں کی کینیا کی نیشنل انٹیلی جنس سروسز اور وزارت خارجہ کے حکام سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔

ارشد شریف قتل کیس: پاکستانی انکوائری کمیٹی نیروبی پہنچ گئی

سائرس اومباتی کے مطابق جن 34 افراد سے پوچھ گچھ کی گئی ہے ان کا تعلق کینیا کے علاقے کاجیاڈو نارتھ کے دو دیہات اسونوروا (Esonorua) اور ٹنگا (Tinga)سے ہے. جو مگاڈی کے قریب واقع ہیں۔ ارشد شریف کو لے جانے والی سفید لینڈکروز گاڑی پر فائرنگ کا واقعہ انہی دیہات کے قریب پیش آیا تھا۔

جیسا کہ پہلے رپورٹ ہو چکا ہے کینیا کی پولیس ایک مرسیڈیز گاڑی کو ڈھونڈ رہی تھی جس کی چوری کی اطلاع دی گئی تھی۔

سائرس اومباتی کے مطابق ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کرنے والے پولیس اہلکاروں کو ان گواہون نے بتایا ہے کہ کینیا کی پولیس نے اسونوروا اور ٹنگا کے مکینوں کو بتایا تھا کہ مذکورہ گاڑی اس علاقے میں دیکھی گئی ہے اور اگر انہیں نظر آئے تو وہ پولیس کو اطلاع دیں۔ دیہاتیوں کو کمیونٹی پولیسنگ کے حوالے سے یہ ہدایات بھی دی گئی تھیں کہ وہ راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کریں۔

کینیا کی پولیس کے مطابق گواہوں نے بتایا ہے کہ اس اطلاع کے مطابق دونوں دیہات کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کی تھیں جب کہ انہیں معلوم ہوا کہ گاڑی ایک اور ناکے سے گزری ہے جو جنرل سروس یونٹ (جی ایس یو) نے قائم کیا تھا۔

یاد رہے کہ جی ایس یو ہی وہ فورس ہے جس پر ارشد شریف کی گاڑی پر گولیاں چلانے کا الزام ہے۔ اس فورس پر پہلے بھی ماورائے عدالت قتل کے الزامات لگ چکے ہیں۔

سائرس کے مطابق معاملے میں ملوث جی ایس یو کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ دیہاتیوں نے فون کرکے انہیں اطلاع دی تھی کہ چوری شدہ گاڑی ان کی طرف آرہی ہے۔ ان اہلکاروں نے تفتیش کارون کو دیہاتیوں کی طرف سے موصول ہونے والی کالز کا ریکارڈ بھی فراہم کیا ہے۔

عینی شاہدین کے مطابق سفید گاڑی کوینیا (Kwenia) شوٹنگ کیمپ کی جانب سے آ رہی تھی۔

واقعے کے وقت جو لوگ اسونوروا میں تھے انہوں نے بتایا کہ فائرنگ کے چند منٹ بعد انہوں نے ایک گاڑی کو وہاں سے گزرتے دیکھا جس کے ایک ٹائر میں ہوا نہیں تھی۔

سائرس کے مطابق اس وقت تک گاڑی پر جی ایس یو ٹریننگ کیمپ کے قریب کموکرو کے علاقے میں فائرنگ ہو چکی تھی۔

یہ گاڑی ٹنگا کے علاقے تک چلتی رہی جہاں کوینیا شوٹنگ کیمپ کے مالک کا ایک اور گھر ہے۔ یہان پہنچ کر گاڑی گیٹ پر رک گئی۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ لوگ گاڑی کے پاس پہنچے اور دیکھا کہ اس کا مسافر یعنی ارشد شریف مر چکا تھا اور اس کے سر میں گولی کا زخم تھا جب کہ ڈرائیور کو کوئی زخم نہیں آیا تھا۔

ان عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ڈرائیور گولیاں لگنے کے بعد 20کلومیٹر تک گاڑی چلاتا رہا اور پھر رکا۔

ارشد شریف دو ماہ سے کینیا کے پوش علاقے میں ٹھہرے تھے

ان لوگوں نے پولیس کو فون کیا اور یہی اطلاع دی۔ کیسران پولیس اسٹیشن سے پولیس 30 منٹ بعد پہنچی جس نے لاش کو تحویل میں لیا۔

اس وقت تک کموکرو کے ناکے پر تعینات جی ایس یو اہلکاروں میں سے ایک اطلاع دے چکا تھا کہ گاڑی سے ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں وہ زخمی ہو گیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ارشد شریف کی گاڑی سے فائرنگ ہونے کے بعد جی ایس یو کے اہلکاروں نے فائرنگ کی جس میں ارشد شریف جاں بحق ہو گئے جب کہ گاڑی کا ٹائر برسٹ ہوگیا۔

تاہم سائرس کے مطابق تحقیقاتی ٹیم کو جائے وقوعہ پر گاڑی یا اس کے قریب سے کوئی ہتھیار نہیں ملا۔

تحقیقاتی ٹیم کو یہ بھی معلوم ہوا ہے یہ گاڑی چلانے والا خرم احمد کوینیا شوٹنگ رینج کے مالک وقار احمد کا بھائی ہے۔

ارشد شریف قتل: خرم اور وقار کا کراچی سے کیا تعلق ہے؟

سائرس کے مطابق انہوں نے وقار سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے فون نہیں اٹھایا۔

دی اسٹار کینیا کے رپورٹر کے مطابق فائرنگ کے بعد خرم نے وقار کو فون کیا تھا جس نے ہدایت دی تھی کہ وہ ٹنگا میں شاپنگ سینٹر تک جائیں اور مدد حاصل کریں۔

وقار اور خرم کا بیان لیا جانا ابھی باقی ہے۔

وفاقی وزیر داخل رانا ثنا اللہ نے جمعہ کو تصدیق کی کہ خرم احمد کا تعلق کراچی سے ہے۔

arshad sharif death

arshad sharif