Aaj News

اتوار, نومبر 17, 2024  
15 Jumada Al-Awwal 1446  

لانگ مارچ: عمران خان کیلئے کیسا رہے گا؟

فیصل واوڈا نے اپنی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ وہ اس مارچ میں خون کی ہولی دیکھ رہے ہیں۔
شائع 28 اکتوبر 2022 04:26pm
تصویر بزریعہ ٹوئٹر
تصویر بزریعہ ٹوئٹر

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان لاہورسے اسلام آباد تک لانگ مارچ کے آغازسے تھوڑی ہی دوری پرہیں، اس لانگ مارچ کا آغازجہاں چند اچھے خطوط پرہورہا ہے تو وہیں چند برے خطوط بھی نظرآتے ہیں۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ پی ٹی آئی کے حامی آج صبح مقررہ وقت سے قبل ہی لبرٹی چوک پہنچنا شروع ہوگئے ، گوفی الحال ان کی تعداد اتنی زیادہ نہیں لیکن اتنی مایوس کُن بھی نہیں کیونکہ پاکستان تحریک اںصاف کے کارکنوں کو پہنچنے کیلئے دیا جانے والا صبح 11 بجے کا وقت ریلیوں کیلئے خاصا جلدی تھا۔

پی ٹی آئی میں بہت سے فیصل واوڈا ہیں۔

تشدد کا خوف

لانگ مارچ سے صرف 2 روز قبل پارٹی رہنما فیصل واوڈا نے اپنی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ وہ اس مارچ میں خون کی ہولی دیکھ رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی اور دیگر رہنماؤں نے ان کی پیش گوئی کو لانگ مارچ کو سبوتاژ کرنے کی کوشش قرار دیا۔ لیکن اس بات کا محض امکان بھی بہت سے حامیوں کو شرکت سے روک سکتا ہے۔

بہت سے دوسرے علاقوں کے برعکس، پی ٹی آئی کی طاقت کی بنیاد مانے جانے والے پنجاب اورخیبرپختونخوا سے کبھی ایسی خونی بغاوتوں کے لیے پیش قدمی نہیں کی گئی۔ گو پی ٹی آئی نے اپنے حامیوں سے ’’ہر قسم کی قربانیاں‘‘ دینے کا حلف لیا ہے لیکن قربانی کا محض ذکر ہی خاصا تشویشناک ہوتا ہے ، شاید اسی لیے ہفتے کے اختتام پرعمران خان کو اس خوف سے بچاؤ کیلئے اپنے حامیوں سے مارچ کے دوران انجوائے منٹ کا وعدہ کرنا پڑا۔

بہرحال، فیصل واوڈا کی باتوں میں اثرتوتھا۔

مارچ کی شروعات سے چند گھنٹے قبل، سردارخرم لغاری نے اعلان کیا کہ وہ پنجاب میں پانچ سے چھ دیگرارکان صوبائی اسمبلی کے ساتھ پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے کہا کہ وہ مارچ کی حمایت کرتے ہیں اور اسلام آباد تک کم از کم 400 کارکنوں کی قیادت کریں گے، لیکن یہ اعلان پنجاب حکومت کے لیے ایک دھچکے کے طور پردیکھا گیا، جس کی حمایت اس لانگ مارچ کیلئے انتہائی اہم ہے۔

تیسری پیش رفت پی ٹی آئی کے سینیٹراعظم سواتی کی قدرے کمزور پریس کانفرنس تھی۔

پسپائی اختیارکرنا؟

پاکستانی سیاست کے تناظرمیں دیکھا جائے تو لانگ مارچ احتجاج کی سب سے جارحانہ اقسام میں سے ایک ہے۔ عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی نے دو دن پہلے تک جارحیت کا مظاہرہ کیا، سینیٹر اعظم سواتی نے دھمکی دی تھی کہ وہ پریس کانفرنس کرکے اپنے کسٹوڈیل ٹارچرکے حوالے سے کچھ اہم نام بتائیں گے۔

عمران خان بھی کہتے رہے کہ اعظم سواتی کو حراست میں لے کران کا بھی شہباز گل کی طرح استحصال کیا گیا اورتشدد کی ان اقساط کے پیچھے ”ڈرٹی ہیری“ کا ہاتھ تھا۔

اسی لیے پی ٹی آئی سینیٹرکوآج صبح کی جانے والی پریس کانفرنس میں اس سارے معاملے کے پس پردہ شخصیت کا نام بتانا تھا لیکن وہ نام بتائے بغیر حتیٰ کہ صحافیوں کے سوالات سُنے بغیرہی چلے گئے۔

یہ پسپائی کی علامت تھی

مارچ سے پہلے عمران خان کے ویڈیو پیغام سے بھی ظاہرہوا کہ ان کا جارحانہ لب ولہجہ مفقود ہے، انہوں نے کہا کہ مارچ کا مقصد حکومت کا تختہ الٹنا یا نئی حکومت کا قیام نہیں تھا۔

پارٹی رہنما اسدعمرنے بھی آج جمعہ کو کی جانے والی پریس کانفرنس میں بتایا کہ پی ٹی آئی اسلام آباد کے سیکٹرایچ 8 میں ریلی نکالنے کا ارادہ رکھتی ہے، جو ریڈ زون سے تقریباً 12 کلومیٹردورہے۔

ان کا مقصد ڈی چوک جانا نہیں ہے جس پر 2014 میں دھرنے کے دوران پی ٹی آئی کے مظاہرین نے قبضہ کررکھا تھا۔

ڈیفالٹ لب ولہجہ

اس لیے ایسا لگتا ہے کہ اس مارچ میں سب کچھ ہے لیکن وہ بات نہیں جو اسے نئے انتخابات کی جانب لے جاسکے جس کی پی ٹی آئی قیادت خواہش رکھتی تھی۔

اس طرح کے احتجاج سے شاید ہی اقتدار کی راہداریوں میں کوئی فرق پڑے۔

آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم اور فوجی ترجمان لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار بھی گزشتہ روزجمعرات کوکی جانے والی پریس کانفرنس میں عندیہ دیے چکے ہیں کہ مارچ کے پُرامن رہنے تک اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اسے روکنے کا کوئی ارادہ نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پرامن احتجاج ایک جمہوری حق ہے جسے ہر پاکستانی استعمال کرسکتا ہے، اگرحکومت نے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو طلب کیا تو حکومت اس کی حمایت کرے گی۔

تاہم، یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا مارچ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے شامل ہونے پر کیا عمران خان کا غیر فعال لہجہ پہلے جیسے جارحانہ انداز میں واپس آتا ہے۔

ہم تب تک یہ نہیں جان سکتے جب تک کہ مارچ کل بروز ہفتہ لاہورسے روانہ نہیں ہوجاتا۔

imran khan

PTI long march 2022