لانگ مارچ کا آرمی چیف کی تعیناتی سے کیا تعلق؟
شاید کچھ حلقوں کی اس بات کو سنجیدہ نہ لیا جاتا کہ عمران خان نومبر میں اسلام آباد میں لانگ مارچ لاکر نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں۔ مگر عمران خان کے سب سے بڑے سیاسی حریف نواز شریف نے یہ بیان دے کر سب کو حیران کردیا ہے کہ عمران خان کا لانگ مارچ انقلاب کے لئے نہیں بلکہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانے کےلئے ہے۔
اگرچہ پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہوسکتا ہے، مگر یہ پہلو غور طلب بھی ہے اور جواب طلب بھی کہ کیا ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی کے دباؤ پر اس کی مرضی کا آرمی چیف لگا دیا جائے؟
جن کے پاس آئینی اختیار ہے وہ اگر اپنی پسند اور ناپسند کا اختیار استعمال کرنا چاہیں تو سوچا بھی جاسکتا ہے، مگر اس بار صورت حال بہت ہی عجب ہے۔
سب سے پہلے عمران خان کی اس بات نے ہلچل مچائے رکھی کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کو لوٹنے والے کیسے اپنی مرضی کا آرمی چیف تعینات کرسکتے ہیں، اور بس آرمی چیف میرٹ پر ہونا چاہئے۔
اس میں ایک بات تو درست بھی ثابت ہوسکتی تھی کہ وزیراعظم پی ڈی ایم کا ہے اور درپردہ اگر اس کے قائدین وزیراعظم شہباز شریف کو کچھ مشورہ دیتے ہیں، تو وہ مشورہ نہ تو ریکارڈ پر ہوگا اور نہ ہی چیلنج کیا جاسکتا ہے، کیونکہ بظاہر تو اس نام کا اعلان وزیراعظم کے دستخطوں سے ہی ہوتا ہے۔
دوسرا عمران خان جس میرٹ کی بات کرتے ہیں، وہ آج تک یہ بتا نہیں سکے کہ وہ میرٹ ہے کیا۔ ظاہر ہے عمران خان یہ بات تو اپنی زبان سے نہیں کہہ سکتے کہ جو نام ان کے سینے میں ہے وہی میرٹ ہے، تو پھر وہ کیسے اپنا مدعا بیان کریں گے کہ میرٹ کیا ہے؟ ظاہر ہے اس کا جواب ان کے پاس نہیں۔
اب اگر نواز شریف کا دعوٰی مان لیا جائے کہ عمران خان کا لانگ مارچ انقلاب کے لئے نہیں بلکہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانے کے لئے ہے، تو اس کا جواب بھی تلاش کرنا پڑے گا کہ وہ کس طرح اپنی مرضی کا آرمی چیف لگا سکیں گے۔
کیا وہ وزیراعظم شہباز شریف پر اتنا دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وزیراعظم مجبور ہوجائیں کہ عمران کی پسند کا آرمی چیف لگا دیں۔
ظاہر ہے یہ بات مذاق تو ہوسکتی ہے، مگر اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ عمران خان اپنے ہی دیرینہ ساتھی صدر عارف علوی کو مجبور کریں کہ وہ شہباز شریف کے بھیجے گئے نام کی سمری پر دستخط کرنے کی بجائے واپس کردیں تاکہ ایک نیا بحران پیدا ہوجائے۔
تیسرا اور آخری آپشن یہ ہے کہ فوج کا ادارہ ہی عمران کے لانگ مارچ کے دباؤ میں آجائے اور عمران سے درخواست کرے کہ جی آپ اپنی پسند کا نام بتائیں تاکہ ہم وزیراعظم کو مجبور کرسکیں کہ وہ مان جائیں۔ یہ بات بھی مذاق سے کم نہیں ہوسکتی۔
جی! اگر یہ سب کچھ نہیں ہے تو پھر کونسا طریقہ باقی رہ جاتا ہے، جس سے یہ انہونی ہوجائے؟
یہ تب ہی ممکن ہے کہ لانگ مارچ کے دوران اور 29 نومبر سے پہلے کوئی ایسی صورت حال پیدا ہوجائے کہ شہباز شریف حکومت کی رخصتی ہوجائے، تو پھر شاید یہ تعیناتی مؤخر ہوجائے یا کوئی نیا راستہ نکل آئے۔
مگر، اگر ایسا ہوجائے تو پھر ایسی روایت کو مستقبل میں کون روک سکے گا کہ ملک کے سب سے اہم عہدے پر بھی لانگ مارچ کی شکل میں اپنی پسند منوائی جاسکتی ہے۔
یقیناً ڈسپلن اداروں والے ایسی روایت کو نہیں پنپنے دیں گے اور پاکستان کی بہتری بھی اسی میں ہے کہ یہ بحث ہمیشہ کے لئے ختم کرا دی جائے کہ، نہ تیرا آرمی چیف نہ میرا آرمی چیف۔۔۔ بلکہ آرمی چیف صرف دفاع وطن کے لئے۔
Comments are closed on this story.