فاٹا انضمام کے چار سال، باجوڑ میں خواتین پولیس کی بھرتی نہ ہوسکی
مجھے یہ خوف ستاتا ہے کہ آنے جانے کے دوران قتل کرنے کےلئے کوئی مجھ پر حملہ نہ کردے۔
یہ کہنا تھا باجوڑ سے تعلق رکھنے والی خاتون حلیمہ بی بی (شناخت چھپانے کےلئے فرضی نام ) کا جنہیں مبینہ طور پر شوہر کے قتل کے کیس میں گرفتار کرلیا گیا ہے اور گزشتہ سال سے تیمرگرہ جیل میں قید ہے۔ ان کا مقدمہ باجوڑ کی مقامی عدالت میں چل رہا ہے۔ جس دن پیشی ہوتی ہے تو ملزمہ کو تیمر گرہ سے باجوڑ لایا جاتا ہے۔
خاتون کو لانے کیلئے باجوڑ پولیس میں کوئی خاتون اہلکار نہ ہونے کی وجہ سے محکمہ پولیس کو محکمہ تعلیم یا ہسپتال کی کلاس فور ملازمہ کی خدمات حاصل کرنا پڑتی تھیں اور یہ ایک خاصا مشکل کام تھا۔
ضلع باجوڑ کی جیل میں خواتین کے لئے الگ لاک اپ نہ ہونے کی وجہ سے خواتین قیدیوں کو تیمر گرہ لے جانا پڑتا ہے اور وہ کیس سے بری ہونے تک تیمرگرہ جیل میں سزا کاٹتی ہیں۔
خواتین کی جیل نہ ہونے سے خواتین قیدیوں کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟
قتل کے الزامات میں گرفتار دو خواتین میں سے ایک کے ساتھ بات چیت ہوئی۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک نے بتایا کہ انہیں باجوڑ میں مقامی عدالت لانے اور واپس جانے میں شدید مشکلات ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر باجوڑ جیل میں خواتین کے لئے الگ لاک اپ ہوتا تو اتنی اذیت سے نہیں گزرنا پڑتا اور رشتہ داروں کے ساتھ ملاقات بھی آسانی سے ہوجاتی۔
باجوڑ عدالت میں جب بھی پیشی ہوتی ہے تو تقریباً 40 کلومیٹر ایک طرف سے سفر کرنا پڑتا ہے اور پھر واپسی بھی کرنی ہوتی ہے۔
باجوڑ پولیس کے اہلکار نے بتایا کہ پہلے خواتین ملزمان کو لانے اور واپس جیل لے جانے کیلئے خواتین نہیں تھیں اور ہمیں مجبوراً محکمہ تعلیم یا محکمہ صحت کے کلاس فور (خالہ) خاتون ملازمہ کو لے جانا پڑتا تھا۔ اب دوسرے اضلاع سے 10 خواتین پولیس اہلکار لائی گئی ہیں جن میں پانچ ڈیوٹی پر ہوتی ہیں اور پانچ چھٹی پر ہوتی ہیں۔
مقامی خواتین پولیس میں ملازمت کیوں نہیں کرتیں؟
قبائلی اضلاع کو خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کو چار سال پورے ہوگئے لیکن تاحال علاقہ میں ایک لیڈی پولیس اہلکار تعینات نہ ہوسکی۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر باجوڑ عبدالصمد خان نے بتایا کہ باجوڑ میں فی میل پولیس کی 24 سیٹ ہیں، پچھلے سال یہ پوسٹ جب اشتہار ہوئیں تو اس وقت علاقے کی رسم و رواج کی وجہ سے کسی نے بھی اپلائی نہیں کیا۔ اس کے بعد ہم نے اس کیلئے پوری مہم چلائی اور علاقہ عمائدین اور مشران کے ساتھ بھی ڈسکس کیا۔ اس سال یہ تمام پوسٹ دوبارہ ایٹا کے ذریعے مشتہر کی گئی ہیں اور رزلٹ آنے کے بعد امید ہے کہ لیڈیز پولیس کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
صمد خان کا کہنا تھا کہ یہ علاقہ پسماندہ ہونے کی وجہ سے بھرتی میں خواتین کو تعلیم اور عمر کے لحاظ سے خاص رعایت دی گئی ہے۔ جس میں ان کی تعلیم میٹرک کے بجائے مڈل پاس اور عمر کو پچیس کی بجائے 30 سال کردیا گیا ہے تاکہ بھرتی کا عمل آسان ہوسکے اور خواتین پولیس میں بھرتی ہوسکیں۔
ڈی پی او صمد خان کا مزید کہنا تھا کہ باجوڑ کو ریجنل پولیس آفیسر ملاکنڈ نے دس لیڈیز پولیس دی ہیں جس سے باجوڑ میں لیڈیز پولیس کے حوالے سے یہ مسئلہ عارضی طور پر ختم ہوگیا ہے اور ان کی وجہ سے ہمیں گرفتاری اورچھاپوں کے دوران وہ دشواری نہیں آتی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ لیکن یہ اسٹاف بھی کم ہے کیونکہ تھانوں میں خواتین کی الگ ڈیسک قائم کرنی ہوتیہے اور اس کے لئے بھی نفری کی ضرورت ہے۔
باجوڑ میں خواتین پولیس کی بھرتی خواتین کیلئے کتنی اہم ہیں
خواتین پولیس بھرتی ہونے سے ہر تھانے میں خواتین کی ایک الگ ڈیسک قائم ہوجائے گی۔ خواتین اپنے مسائل خواتین پولیس کو ہی بہتر انداز میں بغیر کسی ڈر کے بیان کرسکیں گی۔ لیڈیز پولیس کے آنے سے خواتین اپنے کیسز آسانی کے ساتھ ان کو بیان کرسکیں گے۔
باجوڑ خار سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن شاہد خان نے بتایا کہ اگرباجوڑ میں خواتین پولیس ہوتی تو یہاں پر خواتین کی طرف سے مزید کیسز بھی رپورٹ ہوسکتے تھے مگر پولیس نہ ہونے کی وجہ سے اکثر خواتین اپنے مسائل اور تشدد کے کیسز مرد پولیس اہلکار کو آسانی سے بیان نہیں کرسکتیں، خصوصاً ہراسمنٹ یا دیگر کیس زکے حوالے سے وہ نہیں بتاسکتیں۔
انضمام کے بعد باجوڑ میں خواتین کی جانب سے کی جانیوالے جرائم اوردیگر کیسز کی تعداد
رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت حاصل کی جانے والی معلومات کے مطابق ضلع باجوڑ میں محکمہ پولیس نے اپریل 2019 سے کام شروع کیا ہے۔
معلومات کے مطابق اپریل 2019 سے لیکر ستمبر 2022 تک ضلع باجوڑ میں قتل کے کیسز میں دو خواتین گرفتار ہوئی ہیں اور اس کے علاوہ دیگر جرائم میں ضلع باجوڑ میں 28 خواتین قتل ہوئیں۔
محکمہ پولیس میں عورتوں پر تشدد کے 27 کیسز رپورٹ ہوئے۔ 12 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا جبکہ خواتین کے اغواء کے تین کیسز رپورٹ ہوئے اور اس کے ساتھ غگ ایکٹ کے تحت دو مقدمات درج کروائے گئے ہیں۔
خواتین پولیس کو بھرتی کا طریقہ مزید آسان بنایا جائے
عوامی نیشنل پارٹی باجوڑ کے جنرل سیکرٹری نثار باز کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں زیادہ ترخواتین ناخواندہ ہیں اور جو تعلیم یافتہ خواتین ہیں وہ درس وتدریس کی شعبے میں ملازمت کو ترجیح دیتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جو کم تعلیم یافتہ ہیں وہ ایٹا ٹیسٹ پاس نہیں کرسکتیں، اس لئے اگر صوبائی حکومت واقعی ان علاقوں میں خواتین پولیس بھرتی کرنا چاہتی ہے تو ان کے لئے ایٹا ٹیسٹ کی شرط ختم کرنی چایئے تاکہ وہ خواتین جو کم تعلیم یافتہ ہیں اور پولیس بھرتی کی خواہش مند ہیں تو کم ازکم ان کو بھرتی کرنے سے باجوڑ میں لیڈیز پولیس کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
رابعہ گل باجوڑ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں واحد خاتون وکیل ہیں۔ ان کے پاس زیادہ تر خواتین کے کیسز ہیں۔ رابعہ گل کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں لیڈیز پولیس نہ ہونے کی وجہ سے خواتین اپنے مسائل اس طرح مرد پولیس کی ساتھ نہیں رجسٹرڈ کرواتیں۔
خواتین اس علاقے میں رسم ورواج کی وجہ سے بھی بہت زیادہ محتاط ہوتی ہیں اور ناخواندہ ہونے کی وجہ سے بھی پولیس کلچر سے ناوقف ہوتی ہیں۔
ان کے مطابق لیڈیز پولیس کے آنے سے خواتین آسانی کے ساتھ اپنے مسائل رجسٹرڈ کرواسکتی ہیں۔
رابعہ گل کے پاس خود تشدد یا جنسی زیادتی کا کوئی کیس نہیں ہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کیسز اور بچوں کی تحویل کے حوالے سے لیڈیز پولیس کا ہونا بہت ضروری ہیں۔
Comments are closed on this story.