میں 22 سال کی ہوں اور قطع برید کا سوچتے ہوئے ڈرتی ہوں
میں 22 سال کی ہوں ۔۔ مجھے ایسا تو نہیں لگتا کہ مجھے کینسر ہے لیکن ایسا ہمیشہ نہیں تھا اور نہ ہی ایسا ہے کہ اس کے مرتب کرده اثرات جا چکے ہیں کوئی بھی جو اس مرض سے یا چھاتی سے متعلق کسی بھی مرض سے متاثر ہوا ہو, وہ اس بات کو باآسانی سمجھ سکتا ہےکی اس کے اثرات ہمیشہ ساتھ رہتے ہیں. عام زبان میں یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ گاڑی یا موبائل ایک مرتبہ مرمت کے لیے کھل جائے تو اس کی قیمت اور کام کرنے کى صلاحیت متاثر ہوتی ہے.
میں 15 سال کی تھی جب میں نے اپنے سینے میں گٹھلى نُما مادہ محسوس کیا. کیوں کہ ہمارے معاشرے میں عورت اورعورت کی جسامت سے متعلق کوئی بھی بات کو کرنے کو انتہائی غیرمہذب مانا جاتا ہے, تومجھے بھی یہ بات کرنے میں اب تک جھجک محسوس ہوتی ہے۔
اور جب میں نے اس حوالے سے امی سے بات کی تو انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ, ہو سکتا ہے کہ کھیل کود میں چوٹ لگ گئی ہو یا ماہواری کی وجہ سے بھی اکثر پٹھے کھینچ جاتے ہیں تو بات آئی گئی ہو گئی۔
اتنی زیادہ آئی گئی ہوگئی کہ دو ڈھائی سال گزرگئے وہ گٹھلى میرے اندر میرے ساتھ پلتى رہى، شاید اس وجہ سے کہ اس میں درد محسوس نہیں ہوتا تھا تو میں نے اس بارے میں بتانا ہی چھوڑدیا۔ لیکن میرے لیے سترہ سال کی عمر میں بھی غور طلب بات یہ تھی کہ میری جسم کی سیدھی طرف کى ساخت اُلٹى طرف سے غیر معمولی طور پر زیادہ تھی جو مجھے خود بھی پتہ تھا کہ یہ کوئی عام بات نہیں ہے ہے کیونکہ اگر ہوتی ۔۔۔۔ تو میں نے ایسا کچھ کبھی کسی اور کے ساتھ ہوتے ہوئے دیکھا ہوتا۔
اسى تجسس نے مجھے اس بارے میں میری خالہ سے بات کرنے کی ہمت دی اور جیسے ہی میں نے ان سے اس بات کا ذکر کیا کہ میرے خیال میں بریسٹ کی دائیں جانب اور کمر بہ نسبت بائیں طرف کے زیادہ بھاری ہے تو اس بات کو سُنتے ہی ان کے چہرے پر انتہائی حیران کن اثرات ابھرے۔
پہلے تو انہوں نے یہ بات ہنس کے ٹال دی کہ تمہیں ویسے ہی وہم ہوتے رہتے ہیں لیکن جب میں نے اُنہیں بتایا کہ میرے سینے میں کوئی گٹھلی جیسی چیز محسوس ہوتی ہے جس کے وزن سے اکثرمجھے کمر میں درد ہوتا ہے تو انہوں نے فوراً اس بارے میں میری امی سے بات کی اور جب امی نے باقاعدہ خود محسوس کرکے دیکھا تو ان کے تاثرات بھی خالہ سے مختلف نہیں تھے۔
ہم نے فوراً گھر سے قریبی اسپتال میں لیڈی ڈاکٹر سے معائنہ کروایا، جس نے جائزہ لینے کے بعد یہی تجویز دی کہ اس کا ہر صورت آپریشن ہونا لازمی ہے کیونکہ ایک تو اس گٹھلی کا حجم الٹراساؤنڈ میں سینٹی6 میٹر آیا تھا اور دوسرا یہ کہ اسے نکالنے کے بعد بائیوپسی Biopsy ہونا لازمی تھی جس کے بعد ہی علم ہوسکتا تھا کہ آیا یہ چھاتی کا سرطان ہے یا پھر بےضررگٹھلی۔
مجھے یاد ہے کہ میرے گھر پر ایک الگ ہی افسوس اور پریشانی کا ماحول اس خبر کے باعث پیدا ہو گیا تھا جس کی سب سے بڑی وجوہات یہ تھیں کہ:
- ابھی تو اتنی چھوٹی ہے
- لڑکی ہے اس کا آگے کیا ہوگا
- لوگ طرح طرح کی باتیں کریں گے
مگران میں سے کوئی بات بھی کبھی میرے منہ پر کسی نے نہیں کی بلکہ یہ سرگوشیاں اکثر کانوں میں پڑ جاتی تھیں۔
شاید چھوٹی تھی تو یہ باتیں مجھے دقیانوسی اور پرانی معلوم ہوتی تھیں، میرے لیے صرف یہ بات معنی رکھتی تھی کہ اگلے دس دن بعد میرے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات ہیں جو ان تمام معاملات کی وجہ سے اثر اندازنہیں ہونے چاہئیں۔
میں بالکل یہ نہیں کہوں گی کہ میں بہت مضبوط اعصاب کی مالک ہوں لیکن میں اپنے گھر میں بڑی ہوں اورمیرے بھائی کی طبیعت بھی خاصی خراب رہ چکی تھی تو امی شاید ان تمام معاملات کی وجہ سے پورا مہینہ پریشان تھیں تو مجھے اپنے لیے یہ ایک ذمہ داری سی لگتی ہے کہ میری وجہ سے میرے گھر کا ماحول خراب نہ ہو یا کوئی اداس نہ ہو.
میں نے اپنے امتحانات کے باعث آپریشن کو ایک مہینے ملتوى کروایا تھا لیکن اس دوران ایک اسپتال سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کے چکر لگا لگا کر میں ذہنی طور پرعاجز آچکی تھی.
وہاں ویٹنگ روم میں گھنٹوں انتظارکرنے والے لوگوں کے الٹے سیدھے سوالات اور پھر اپنے دماغ میں آنے والی سوچوں سے مجھے سخت وحشت ہونے لگی تھی، شاید ڈر لگتا تھا کہ درد ہوگا، ٹانکے لگیں گے لیکن پھر بھی یہ تھا کہ امتحان کی وجہ سے دھیان تھوڑا بٹ جاتا تھا۔
میرے لئے سب سے عجیب بات یہ ہوتی تھی کہ آپ کو ہر بار ایک نئے انسان کے سامنے اپنے معائنے کے لیے کپڑے اُتارنے پڑتے تھے. ایک عجیب سی صورتحال ہوتی تھی یعنی میں مسلسل خود کو تسلی دینے کے لئے دل ہى دل میں کہتی رہتى تھی کہ بس ہوگیا، کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن اس کی وجہ سے میں ذہنی طور پر بہت عاجز آگئی تھی اور سینے کی تکلیف بھی مستقل ٹیسٹس وغیرہ کی وجہ سے بڑھ گئی تھی۔ میں نے بہت مشکل سےامتحانات کا وقت نکالا۔
امتحان ختم ہونے پر جہاں سب خوشیاں منارہے ہوتے تھے سکون کا سانس لے رہے تھے، میں مزید پریشان تھی ،اتنا کہ میری دھڑکنیں مجھے اُس شور وغل میں بھی سنائی دے رہی تھی۔ کیونکہ اگلے ہی دن میرا آپریشن تھا۔ لیاقت نیشنل اسپتال میرے لیے مستقل پورے مہینے ایک خطرے کی گھنٹی کی طرح میرے سرپر بجتا رہا کیونکہ میرا امتحانی مرکز خاتون پاکستان کالج تھاجو اس اسپتال کے بالکل سامنے واقع ہے۔
میں روز اسپتال دیکھتے ہوئے دن گنتی جاتی تھی کہ ایک ماہ بعد جانا ہے، چھ دن بعد، آخری امتحان والے دن سوچا ”اگلے دن جانا“ ہے۔
21 مئی 2018 کو میرا آپریشن ہوا میرے والدین اور میری خالہ میرے ساتھ تھیں ، میرے گھر والوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اس بارے میں کسی کوبتانا نہیں چاہتے ۔ بالخصوص لوگوں کی باتوں کے ڈر سے۔۔۔ لیکن میں جو اُس وقت بضد تھی کہ وہ غلط کر رہے ہیں، میں نے کئی بار گھر پراس وجہ سے بحث بھی کی، کہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟۔۔۔ مجھے یہ خیال پریشان کرتا تھا کہ یہ سب میری غلطی تو نہیں ہے، یا جیسے یہ کوئی گناہ ہے، جسے ہمیں چھپانا چاہیئے— لیکن اب یہ لگتا ہے کہ وہ صحیح تھے۔ کیونکہ جس طرح کے تاثرات لوگوں نے اس بات کو ُسننے کے بعد دیے وہ شاید کسی بھی انسان کو مکمل طور پر توڑنے کیلئے کافی ہیں۔
میرے ذہن میں اسپتال سے متعلق چند یادیں ہی تھیں جو میری امی اور بھائی سے منسلک تھیں اور دونوں ہی یاد کر کے دل دہل جاتا تھا امی کی تکلیف بھری چیخیں یاد آتی تھیں۔ ا سپتال میں، مجھے ایک نرس نے کپڑے بدلنے کے لیے جنرل وارڈ میں ایک گاؤن دیا تھا۔ میرے لیے وہ ایک مشکل لمحہ تھا اتنا کہ میں چیخنا چاہتی تھی کہ مجھے ڈرلگ رہا ہے کہ مجھے نہیں کروانا آپریشن!!! لیکن میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرتی رہی تاکہ کوئی افسردہ نہ ہو۔
پھر، وہاں وارڈ بوائے نے میرے ساتھ آپریشن تھیٹر کے لیے مزید تین نام پکارے، اور میں نے ذہن میں آنے والی ہر ایک سورۃ، آیات، دعاؤں کا ورد کرنا شروع کردیا جو اُس وقت میرے ذہن میں آ رہی تھیں۔ میرا دل ہر قدم کے ساتھ مذید تیزدھڑک رہا تھا جو میں وارڈ بوائے کےپیچھے آپریشن تھیٹر کی طرف اُٹھا رہی تھی۔ اُس وقت واقعی مجھے یہ احساس ہورہا تھا کہ میرا دل کسی بھی وقت پھٹ جائے گا۔
آپریشن تھیٹر کے اندر بیٹھنے کی جگہ تھی جہاں میں اور دو اور خواتین (35-40 سال کی ) آپریشن روم میں بُلائے جانے کا انتظار کر رہی تھیں۔ یہ ایک فلمی منظر سے کم نہیں تھا، جہاں کوئی قیدی پھانسی سے پہلے اپنے خوف کو چھپاتے ہوئے اپنے جرائم اور زندگی کی کہانیوں کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں۔
سچ کہوں تو میں کسی بھی لفظ پر توجہ نہیں دے پارہی تھی جو اُس وقت کوئی بھی کہہ رہا تھا۔ لیکن میں چاہتی تھی کہ وہ وہاں میرے ساتھ رہیں، میں وہاں اکیلے نہیں رہنا چاہتی تھی، مریضوں کی درد سے کراہنے کی آوازیں وہاں صاف آ رہی تھیں۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ ایک نوجوان لڑکا تھا جو اپنی سرجری کے بعد( موٹر سائیکل کے حادثے) کی وجہ سے رو رہا تھا اور اُسکی آوازوں سے میرا دل مذید ڈوب رہا تھا۔
کیونکہ میرا اپنا آپریشن بھی بس ہونے ہی والا تھا، اور مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ کتنا تکلیف دہ ہو سکتا ہے، اس لیے میں گھبرائی ہوئی اور بے خبر دونوں ہی تھی۔
انہوں نے میرا نام پکارا میں آپریشن تھیٹر میں گئی تو وہاں ایک سینئر ڈاکٹر، 4 مرد (جو ہم نے وہاں ہونےسے منع کیا تھا ) اور ایک پریکٹس ڈاکٹر (میں یہ اس لیے کہہ رہی ہوں کہ جب وہ مجھے اینستھیزیا دے رہی تھی تو سینئر ڈاکٹر اُنہیں ہدایات دے رہی تھیں)۔ لیکن انہوں نے ہم سے سینیئرڈاکٹر روفینہ کے نام پر اضافی چارج کیا تھا جبکہ وہ وہاں نہیں تھیں۔
یہ میری آخری یاد تھی، جب انہوں نے پیچھے سے میرا گاؤن کھولا اور مجھے بے ہوش کیا اور یہ واحد موقع تھا، جب میں روئی تھی۔
آپریشن کے بعد وہ مجھے آبزرویشن روم میں لے آئے۔ میرے خیال میں یہ دو گھنٹے طویل آپریشن تھا، کیونکہ انہوں نے مجھے صبح 9 بجے کے قریب بلایا اور میں 11:30 بجے کے قریب اپنے والدین کے پاس واپس (جنرل وارڈ میں) گئی تھی۔
آپریشن کے بعد ہمیں بتایاگیا کہ صورتِ حال توقع سے کافی زیادہ خراب تھی، کیونکہ گھٹلی 6 سینٹی میٹر لمبی تھی اور اُسکے پیچھے دو مزید گھٹلیاں (ایک کے بعد ایک) نکلی ۔ انہوں نے اپنی جڑیں اندر ہی اندر بنائیں اور اس کے ارد گرد کی جگہ کو بھی نقصان پہنچایا جو الٹراساؤنڈ میں نظر نہیں آیا تھا۔
ڈاکٹرز نے مجھے کوئی دوائی تجویز نہیں کی، بس کچھ احتیاطی تدابیربتادیں ۔ بعد میں بایئوپسی میں ہمیں یہ معلوم ہوا کہ ان کا کوئی علاج نہیں ہے کیونکہ گھٹلیاں ہٹا دی گئی تھیں۔ تو ڈاکٹر روفینہ نے کہا کہ ’’آپ بالکل ٹھیک ہیں‘‘ البتہ ہمیں باقاعدہ الٹراساؤنڈ کروانے چاہیئں-
میں نے اپنے آپریشن کے تین دن بعد بورڈ کے پریکٹیکلز دیے، زخموں کی وجہ سے میں اپنی Braمیں سینیٹری پیڈزچپکا کرجاتی تھی،لیکن خوش قسمتی سے میرے اساتذہ نے وہاں واقعی میری مدد کی کیونکہ میں بمشکل اپنا ہاتھ ہلا پارہی تھی۔
میں مسلسل چھاتی کے درد سے نبرد آزما تھی، میرا دایاں ہاتھ کام نہیں کررہا تھا اور نہ ہی میری پیٹھ کا درد جارہا تھا لہذا ہم نے ڈاکٹر تبدیل کیا۔
ہم نے آنکولوجسٹ عطیہ حسین سے مشورہ کیا، اُنھوں نے مجھے یہ واضح طور پربتایا کہ مجھے یہ تکلیف اس وقت تک برداشت کرنی پڑے گی جب تک کہ زخم بھر نہ جائے۔ دوسری طرف میرے والد اس قدر پریشان تھے کہ وہ مجھے ہومیوپیتھک ڈاکٹر کے پاس لے گئےلیکن انہوں نے مجھے دن میں تین بار تقریباً 4-6 دوائیں تجویز کیں اور میں نے وہ لیں۔
جنوری 2019 میں ایک بار پھر سے میرے دائیں سینے میں گھٹلی نمودار ہوئی لیکن اب میں آپریشن کے لیے تیار نہیں ہوں اور نہ ہی ڈاکٹر نے ایسا کرنے کا مشورہ دیا، وہ کہتی ہیں ”آپ کو معلوم ہے کہ آپ ابھی چھوٹی ہیں اور اتنی جلدی دوبارہ آپریشن کا مشورہ میں نہیں دوں گی۔ پہلے کی طرح اس کے کوئی بھی نتائج ہو سکتے ہیں اور ہم کچھ بھی ہونے کی ذمہ داری نہیں لیں گے“۔
اب اس بات کے بعد سے مجھ میں یہ ڈر پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں مجھے mastectomy نہ کروانی پڑجائے جس کیلئے میں قطعاً تیار نہیں۔
میں ابھی دماغی طور پر ماسٹیکٹومی کے لیے تیار نہیں ہوں ،جو کچھ بھی میرے اندرہے میں اسے آئینے میں واضح طور پرنہیں دیکھ رہی ہوں اور یہ میرے لیے کافی ہے۔ میں کسی کو مجھ پر رحم کھانے کی کوئی وجہ نہیں دینا چاہتی۔
میں بار بارالٹرا ساؤنڈ کراتی تھی لیکن جب سے کووڈ آیا وہ بھی بہت سی چیزوں کے ساتھ رہ گیا اور اب مجھے موجودہ صورتحال کا علم نہیں ہے۔ درد، سوجن پاؤں، ڈھیلی جلد، کمر میں درد یا ہاتھ میں مسلسل درد میری زندگی کا حصہ بن گیا اور میں نے اسے قبول کر لیا ہے کیونکہ میرے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے۔
لوگوں کے ردِ عمل اور سوالات:
میں نے اپنے کچھ دوستوں اور قریبی لوگوں کو آپریشن کے بارے میں بتایا تومجھے مختلف باتیں سننے کو ملیں ۔ میں واقعی خوش نصیب ہوں کہ میرے گھر والے میرا بہت خیال رکھتے ہیں لیکن ایسے لوگ بھی ہیں جو اکثر کہتے ہیں:
- یہ عام طور پر شادی یا مباشرت کے بعد ہوتا ہے۔
- ایک آنٹی نے میری امی سے کہا کہ وہ مجھ پر نظر رکھیں کیونکہ میں شام کی شفٹ کے کالج میں تھی۔
- ایسی لڑکیاں شادی کے قابل نہیں رہتی۔
- ہارمونل عدم توازن، ادویات کے مضر اثرات اور آپریشن کی وجہ سے بچے پیدا نہیں کر پائیں گی۔
- مجھے شادی کے بعد بچے پیدا نہیں کرنےچاہئیں کیونکہ وہ جینیاتی طور پراس مرض میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔
- والدین سے کہا گیا کوئی بھی اس سے شادی نہیں کرے گا، آپ کو اس کے بارے میں سب چھپانا چاہئیے. لیکن میں کیسے ایسا کر سکتی ہوں؟ میں جھوٹ پر رشتہ قائم کیسے کر سکتی ہوں؟
- میں فیڈ کروانے کے قابل نہیں رہی یا مجھے فیڈ کروانا نہیں چاہیے۔
- کیا میں ہاتھ لگا کے دیکھ سکتی ہوں؟
- کچھ آنٹیاں مجھ سے ہمدردی کا اظہار کرتی ہیں یا اسے میرے سامنے ایک سانحہ کے طور پر بیان کرتی ہیں جس سے میں سب سے زیادہ چڑجاتی ہوں۔
- ایسا بھی ہوا کہ مجھے میری دوستوں نے بتایا کہ کچھ لوگ رشتہ لانا چاہ رہے تھے لیکن جیسے ہی انہیں معلوم ہوا کہ میرے ساتھ کوئی مسئلہ ہے وہ پیچھے ہٹ گئے۔
مجھے درپیش مسائل:
مجھے سب کے سامنے ایسے ہی ظاہر کرنا پڑتا ہے کہ میں بالکل ٹھیک ہوں چاہے جتنی تکلیف کیوں نہ ہو- مجھے لوگوں کے عجیب سوالات کا جواب دینا پڑتا ہے، اس لیے میں اس پر بات نہ کرنے کو ترجیح دیتی ہوں کیونکہ میری رائے میں، میں نے اپنے آپریشن کے بعد بہت محنت کی۔ اس نے درحقیقت مجھے زندگی کے بارے میں ایک زیادہ واضح منظر دیا کہ آپ اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ اگلے دن بھی کیا ہونے والا ہے۔لہذا آپ کو اپنی طرف آنے والی ہرچیزکے لیے خود کو تیار رکھنا چاہیے ۔
لوگ ولیوں کی طرح عظیم یا جنگجو کے ہاتھ میں تلوار کی طرح سفاک اور بے رحم ہوسکتے ہیں، لہذا اگر آپ کو لگتا ہے کہ کوئی بات آپ کو تکلیف دے گی تو کبھی اُس بارے میں کسی سے بحث نہ کریں۔
- کوئی جو بھی کہے! آخر میں آپ وہ ہیں، جسے جذباتی، ذہنی اور جسمانی طور پر تنہا لڑنا پڑتا ہے، اس لیے کسی سے اُمیدیں وابستہ نہ کریں۔
-اس بات کو پانچ سال ہوچکے ہیں اور ایسے بھی دن ہوتے ہیں جب میں خود کو اکیلا، تھکا ہوا اور بہت زیادہ تکلیف میں پاتی ہوں۔ مجھے تنہا رہ جانے اور کچھ واقعات کی وجہ سے مسترد ہوجانے کا خوف بھی ستاتا ہے ۔ میں اکثر خود کو کم و کمزور بھی محسوس کرتی ہوں۔
-
میں اب بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ صرف ایک گانٹھ کے پیچھے ایک پورے زندہ انسان کو کیسے نظر انداز کرسکتے ہیں؟… لیکن میرا اندازہ ہے کہ لوگ دٓوسرے کے معاملے میں اس طرح ہی سوچتے ہیں۔
-
میرے ذہن میں ہمیشہ یہ خوف رہتا ہے کہ لوگ یہ نہ سوچیں کہ میں اپنی بیماری کا استعمال کر رہی ہوں جس کی وجہ سے کبھی کبھی مجھے بوجھ محسوس ہوتا ہے۔
Comments are closed on this story.