تاریخ کا سب سے دولت مند شخص
جب بات ناقابل تصور دولت کی ہو تو آپ کے دماغ میں ایلون مسک یا جیف بیزوس کا نام آئے، لیکن روئے زمین پر ایک ایسا بھی شخص گزرا ہے جس کی دولت کے آگے ایلون مسک اور جیف بیزوس بھی بھکاری نظر آئیں۔
یہ شخص مالی کا ”موسیٰ اوّل“ المعروف مانسا موسیٰ تھا۔ (”مانسا“ کا مطلب ”بادشاہ“)، اور وہ 14ویں صدی میں قدیم مغربی افریقی سلطنت مالی پر حکومت کرتے رہا۔
دنیا میں سب سے امیر ترین تخت کا وارث
مانسا موسیٰ کے اقتدار میں اضافہ کسی حد تک غیر متوقع طور پر ہوا۔ اس نے 1312 بعد از میسح میں تخت سنبھالا جب شاہ ابوبکر دوم بحر اوقیانوس میں بحری جہازوں کے ایک بیڑے سمیت سمندر میں گم ہو گیا۔
مانسا موسیٰ کے پاس وہ سب کچھ تھا جس کی اس نے خواہش کی۔ مالی کی بادشاہت پر قبضہ کرنے کا مطلب وراثت میں ملنے والی خاطر خواہ دولت پر قابض ہونا تھا۔ لیکن وہ اس سے بھی مطمئن نہیں تھا۔
اس نے اپنے دور حکومت میں 24 نئے علاقے اور شہر فتح کیے اور جنگ کے ذریعے اپنی سلطنت کو بڑھایا۔ اس نے اپنے تجارتی نیٹ ورک کو وسعت دے کر اور مالی کی کان کنی کی سرگرمیوں کو تیز کر کے سلطنت کی مسلسل کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے سخت محنت کی۔
سلطنت نے سونے اور نمک کے زبردست ذخائر دریافت کئے، اگر ان وسائل کو مؤثر طریقے سے نکالا جا سکتا تو دولت کا مسلسل بہاؤ جاری رکھنے کی ضمانت دی جاسکتی تھی۔
چنانچہ، مانسا موسیٰ نے کان کنی کی سرگرمیوں کو تیز کیا، جو ہزاروں مردوں اور عورتوں کی غلامی کے باعث ہوا۔ اس نے ہاتھی دانت کی تجارت کے ذریعے بھی پیسہ کمایا، جس سے ہاتھیوں کی مقامی آبادی پر انتہائی برا اثر پڑا۔
دنیا میں سب سے امیر مملکت کی تعمیر
1312 اور 1337 بعد از مسیح کے درمیان، مانسا موسیٰ نے براعظم افریقہ کے سب سے امیر ترین مقام سلطنت مالی پر حکومت کی۔ اس وقت کے بعد سے نقشے بہت بدل چکے ہیں۔
تو آئیے ایک فوری ریفریشر کرتے ہیں کہ سلطنت مالی کہاں واقع تھی۔
مالی کی قدیم سلطنت افریقی براعظم کے ایک بڑے حصے پر پھیلی ہوئی تھی، بشمول جدید دور کے برکینا فاسو، موریطانیہ، چاڈ، نائیجیریا، نائجر، گنی، گیمبیا، سینیگال اور مالی کے کچھ حصے۔
اختیار میں اتنے زیادہ علاقوں کے ساتھ مانسا موسیٰ کو ایک حیرت انگیز طور پر امیر سلطنت وراثت میں ملی۔ اس نے اپنی پوری زندگی اس میں اضافہ کرتے اور ذاتی دولت جمع کرتے گزاری۔
وہ جانتا تھا کہ انفراسٹرکچر سلطنت کیلئے کتنا ضروری ہے، اسی لیے مانسا موسیٰ نے افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے معماروں کو پورے شہروں کو ڈیزائن کرنے کے لیے بلایا۔
اس نے ان معماروں کو گاؤ اور ٹمبکٹو جیسے متاثر کن میٹروپولس قائم کرنے کے لیے استعمال کیا۔
مزید یہ کہ موسیٰ نے مالی کو پوری اسلامی دنیا کے معروف علمی مرکز میں تبدیل کر دیا۔
مانسا موسیٰ کا مشہور حج کا سفر
1324 عیسوی میں مانسا موسیٰ حج کیلئے مکہ روانہ ہوا، راستے میں مصر بھر کا سفر کیا۔ اس دور کے عربی مصنفین کے مطابق اس کا وفد ناقابل فراموش ثابت ہوا۔
اس نے جہاں بھی سفر کیا نہ صرف اپنا ایک بڑا تاثر چھوڑا بلکہ اس کی دولت پوری قدیم دنیا میں مشہور ہوگئی۔
قاہرہ اور مکہ کے شہروں نے اس کا شاندار استقبال کیا، لیکن موسیٰ جو میں اپنے ساتھ لایا تھا اس کا مقابلہ کرنا ایک چیلنج ثابت ہوا۔ کیونکہ وہ 60 ہزار آدمیوں کے علاوہ فارسی ریشم اور بروکیڈ میں ملبوس 12 ہزار ذاتی غلاموں کو ساتھ لایا تھا۔
عربی مؤرخین نے یہ بھی نوٹ کیا کہ بادشاہ اپنے سامنے 500 غلاموں کے ساتھ گھوڑے پر سفر کرتا تھا۔ یہ نوکر گھومتے پھرتے تھے، ہر ایک کے ہاتھ میں سونے کا عصا تھا۔ مزید یہ کہ اس کی شاہی ٹرین میں 300 پاؤنڈ سونا اور 80 اونٹ شامل تھے۔
دنیا کے امیر ترین آدمی کی میراث
قاہرہ میں اپنے قیام کے دوران مانسا موسیٰ اور اس کے ساتھیوں نے سونے کے عوض بہت خرچ کیا اور اگلے کئی سالوں کیلئے مصر میں سونے کی قیمت گر گئی۔ اس سفر کے دوران موسیٰ نے جو شہرت پیدا کی اس کا اثر کئی دہائیوں، حتیٰ کہ صدیوں تک رہا۔
یورپیوں کے لیے مانسا موسیٰ کی شہرت کا باعث کاتالان اٹلس بنا جو 1375ء میں تیار کیا گیا ایک ایک ہسپانوی نقشہ تھا، یہ نقشہ مانسا موسیٰ نے ڈیزائن کیا تھا، اس میں مغربی افریقہ اور مانسا موسیٰ کی ایک تصویر شامل تھی جس کے ایک ہاتھ میں سنہری عصا تھا اور وہ ایک تخت پر بیٹھا تھا جبکہ دوسرے میں سونے کی ڈلی۔
اگرچہ بادشاہ کا انتقال 1337 عیسوی میں ہوا لیکن پرانی دنیا کے لوگوں نے اسے صدیوں تک ناقابل تصور دولت کا نشان بنا دیا۔
مانسا موسیٰ کی دولت کا مقابلہ
اس مقام پر، آپ شاید سوچ رہے ہوں گے کہ جیف بیزوس اور ایلون مسک جیسے لوگ بھلا مانسا موسیٰ کامقابلہ کیسے کرسکتے ہوں گے۔ لیکن کیا قرون وسطیٰ کا حکمران واقعی آج کے ٹیک ٹائٹنز کا مقابلہ کر سکتا ہے؟
اس وقت جیف بیزوس کی مالیت 130.4 بلین ڈالر اور ایلون مسک کی مالیت 207.7 بلین ڈالر ہے۔ جہاں تک مانسا موسیٰ کا تعلق ہے؟ وہ آج بھی ان سے آگے ہے کیونکہ اگر وہ 2022 میں زندہ ہوتا مالی کے بادشاہ کی ملکیت میں تقریباً 400 بلین ڈالر ہوتے۔
Comments are closed on this story.