سیاسی جلسوں میں انسانوں کی توہین اور جانوروں کے حقوق کی پامالی؟
”شادو اور میلو“، ان الفاظ کو پہلے ضلع چارسدہ کے ہر رہائشی اور پھر میڈیا کے ذریعے تقریباً ہر پاکستانی نے حال ہی میں بہت زیادہ سنا۔یہ دونوں پشتو زبان میں جانوروں کے نام ہیں۔ ”شادو“ کا مطلب بندر اور ”میلو“ کا مطلب ریچھ ہے۔
یہ دونوں الفاظ حقیقی معنوں میں جانوروں کیلئے نہیں بلکہ دو سیاسی جماعتوں کے سربراہان ایک دوسرے کیلئے استعمال کرتے دکھائی دیے۔
اگرچہ صرف کچھ حیوانی استعارے انتہائی ناگوار ہیں لیکن زیادہ تر اپنے مفہوم میں کسی حد تک منفی دکھائی دیتے ہیں۔
جیسے کہ ”شادو“ یا بندر کسی بدصورت یا جلدی جلدی کام کرنے والے یا چھلانگیں مارنے والے انسان اور“میلو“ یا ریچھ بڑے جسامت والے یا سست انسان کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
جامعہ پشاور کے شعبہ حیوانیات (زولوجی) کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ضیغم حسن کا ماننا ہے کہ انسانوں کو جانوروں کے ناموں سے پکارنا اگرچہ جانوروں کی توہین یا حقوق کی پامالی میں نہیں آتا لیکن یہ عمل جانوروں کیلئے خطرناک ہے، کیونکہ عام لوگ ناموں کے منفی استعمال سے ان جانوروں سے نہ صرف نفرت کرنے لگتے ہیں بلکہ اسی نفرت کے نتیجے میں اس جانور کو نقصان پہنچانے کا بھی سوچتے ہیں۔
ڈاکٹر ضیغم کہتے ہیں اگرچہ تمام انواع کو یکساں حیثیت حاصل ہے تاہم ہمارے معاشرے میں انسان کو ”اشرف المخلوقات“ سمجھا جاتا ہے، اس لئے اس رو سے انسان کو جانور کا نام دینا توہین آمیز ہے۔
جانوروں کے حقوق کی تنظیم پیپل فار ایتھیکل ٹریٹمنٹ آف اینی ملز(پیٹا) کا موقف ہے کہ الفاظ ایک زیادہ جامع دنیا تشکیل دے سکتے ہیں یا جبر کو برقرار رکھ سکتے ہیں اور کسی کو جانور کہنے سے اس بیانیے کو تقویت ملتی ہے کہ انسان جانوروں سے برتر ہیں، اسی وجہ سے جانوروں کے حقوق کی خلاف ورزی کو جائز سمجھتے ہیں کیونکہ انسانوں کی منفی خصلتوں کا حوالہ کرکے جانوروں کی تذلیل کی جاتی ہے جو جانوروں سے ظلم اور نا انصافی ہے۔ اس لئے بالادستی کی زبان کو مسترد کرنا چاہیے۔
پیٹا کا خیال ہے کہ ”نسل پرست زبان نہ صرف غلط ہے، بلکہ نقصان دہ بھی ہے“۔
آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف میلبورن میں سائیکولوجی کے پروفیسر نک ہیسلم نے اپنے ریسرچ آرٹیکل میں لکھا ہے کہ بہت سے جانوروں کے استعارے کسی خاص خصلت کی نمائندگی کرنے کی بجائے سیدھے سادے طور پر جارحانہ ہوتے ہیں۔ کسی کو سور، چوہا، بندر، کتا کہنا توہین آمیز، جذباتی اور اخلاقی الزام ہے۔
پروفیسر نک اپنی ریسرچ کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ جانوروں کے کچھ استعارے انتہائی قابل اعتراض ہیں کیونکہ موازنہ خود ہی غیر انسانی ہے اور جانوروں سے تشبیہ دینے والے الفاظ کے استعمال سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ لفظی طور پر غیر انسانی ہیں۔
جمعیت علماء اسلام (ف) خیبرپختونخوا کے ترجمان عبدالجلیل کا موقف ہے کہ ماضی میں عبدالغفار خان، مفتی محمود اور ذوالفقارعلی بھٹو جیسے لیڈروں نے شدید سیاسی اختلاف کے باوجود مخالفین کے خلاف کبھی نازیبا الفاظ کا سہارا نہیں لیا لیکن اب سیاست میں گالی گلوچ اور نازیبا الفاظ کا استعمال بڑھتا جارہا ہے جو ایک مہذب معاشرے کی نشانی نہیں اور پھر کسی کو جانور کے نام سے پکارنا تو کسی صورت جائز نہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی خیبرپختونخوا کی ترجمان ثمر بلور کا کہنا ہے کہ رہنما مشعل راہ ہوتا ہے اور جب کوئی رہنماء غلط زبان استعمال کرکے لوگوں کے نام بگاڑتا ہے تو اس سے نوجوانوں کی تربیت خراب ہوگی جو مستقبل کیلئے خطرناک ہے۔
پیٹا، ڈاکٹر ضیغم اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے جانوروں کے ناموں کو توہین آمیز الفاظ کے طور پر استعمال نہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
Comments are closed on this story.