باجوڑ کے اسکولوں میں اساتذہ کا فقدان کیوں؟
باجوڑ کے واحد ہائیر سیکنڈری اسکول میں سبجیکٹ اسپیشلسٹ کی آٹھ آسامیاں خالی ہیں۔ اس واحد تعلیمی ادارے میں 1400 طالبات زیر تعلیم ہیں۔ تاہم اسٹاف کی کمی کی وجہ سے یہاں طالبات کو مشکلات کا سامنا ہے۔
اسکول انتظامیہ کے مطابق سبجیکٹ اسپیشلسٹ خصوصاَ کیمسٹری، فزکس، اور میتھس پڑھانے والے اساتذہ کی پوسٹیں خالی پڑی ہیں۔ اسکول میں آٹھ سبجیکٹ اسپیشلسٹ استانیوں کی آسامیاں خالی ہیں جس کو بھرنے کیلئے ابھی تک کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر باجوڑ شیرین زادہ کے مطابق ضلع باجوڑ میں پانچ ہائیر سیکنڈری اسکولز ہیں جن میں ایک گرلز اسکول جبکہ چار لڑکوں کے ہائیر سیکنڈری اسکولز ہیں۔
شیرین زادہ کے مطابق ان پانچ ہائیر سیکنڈری اسکولوں میں ٹوٹل 15 سبجیکٹ اسپیشلسٹ اساتذہ کی آسامیاں خالی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ آٹھ آسامیاں گرلز ہائیر سیکنڈری اسکول میں جبکہ سات بوائز ہائیر سیکنڈری اسکولوں میں خالی ہیں۔
خواتین سبجیکٹ اسپیشلسٹ کی خالی آسامیوں کے حوالے سے ڈی ای او نے بتایا کہ اس کی کئی وجوہات ہیں۔
ایک تو یہ کہ گریڈ 17 سبجیکٹ اسپیشلسٹ کی آسامیاں صوبائی لیول کی ہوتی ہیں اور یہاں پر پہلے ہی خواتین کی تعلیمی شرح کم تھی اور بہت کم ہی لڑکیوں نے ان مضامین میں ماسٹرز کئے ہیں جو کہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔
زون ون جو کہ سابقہ فاٹا کا حصہ ہے۔ اس زون میں زیادہ تر دوسرے اضلاع خیبر، مہمند، وزیرستان کی خواتین کا انتخاب ہوتا ہے اور باجوڑ کی خواتین اکثر رہ جاتی ہیں۔ جو باہر اضلاع کی سبجیکٹ اسپیشلسٹ ہیں وہ یہاں پر نہیں آتیں۔
باجوڑ کے واحد گرلز ڈگری کالج سے حال ہی میں بی ایس کا پہلا بیچ فارغ ہوا ہے اور انشاء اللہ امید ہے کہ آنے والے سیشن میں یہ آسامیاں پر ہونگی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مرد اسکولوں میں فزکس اور میتھس کی آسامیاں خالی ہیں اس کی بھی وجوہات یہ ہیں کہ زیادہ تر لڑکے میڈیکل کے شعبے میں جانے کے خواہش مند ہوتے ہیں اور وہ انٹرمیڈیٹ میں میڈیکل پڑھتے ہیں، جن میں اکثریت میڈیکل کیلئے کوالیفائی نہیں کرپاتے اور پھر وہ فزکس یا بائیولوجی میں ماسٹرز کرتے ہیں۔
محکمہ تعلیم باجوڑ کے حکام کے مطابق سبجیکٹ اسپیشلسٹ آسامیوں کی پوسٹنگ، ٹرانسفر کا اختیار سیکرٹری محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کے پاس ہوتا ہے اور یہ صوبائی لیول کی پوسٹ ہوتی ہیں۔ ہم نے مذکورہ آسامیوں کو بھرنے کیلئے محکمے کے اعلیٰ حکام کو پروپوزل بھیج دیا ہے۔
باجوڑ کی تحصیل خار سے تعلق رکھنی والی نائیلہ بی بی (فرضی نام) تعلیم جاری رکھنا چاہتی تھیں، مگر ہائیر سیکنڈری خار میں انٹرمیڈیٹ کلاسز شروع نہ ہونے کی وجہ سے داخلہ نہ لے سکیں۔
وہ کہتی ہیں کہ تعلیم حاصل کرکے اپنے علاقے کی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔ مگر باجوڑ میں تعلیمی اداروں کے نہ ہونے اور اسکولوں کی کمی کے باعث مجھ جیسی ہزاروں لڑکیوں کی خواہش پوری نہیں ہوتی۔
نائیلہ بی بی کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں لڑکیوں کیلئے ہائیر سیکنڈری اسکولوں کی اشد ضرورت ہے اور ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ باجوڑ میں لڑکیوں کیلئے ہائیر سیکنڈری اسکولوں کا قیام عمل میں لایا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ گرلز ہائیر سیکنڈری اسکول خار میں سبجیکٹ اسپیشلسٹ آسامیوں پر تعیناتی جلد از جلد عمل میں لائی جائیں۔
باجوڑ کے علاقہ شینکی علیزو سے تعلق رکھنے والے نظیر گل کا کہنا ہے کہ میری بیٹی میٹرک پاس کرکے مزید تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہے مگر سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقے میں کوئی گرلز ہائی اسکول نہیں ہے اور بڑی مشکل سے پرائیویٹ میٹرک پاس کیا ہے۔
نظیر گل نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ضلع باجوڑ کے تمام یونین کونسلز کے سطح پر گرلز ہائی اسکول اور تحصیل کے سطح پر کم از کم تین ہائیر سیکنڈری اسکولوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری تحصیل خار میں ایک ہائیر سیکنڈری اسکول ہے لیکن سبجیکٹ اسپیشلسٹ گریڈ 17 کی آسامیاں خالی ہونے کی وجہ سے ابھی تک انٹرمیڈیٹ کلاسز شروع نہ ہوسکیں۔
آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت حاصل ہونے والے دستاویزات کے مطابق خار گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری اسکول میں گریڈ 18 پرنسپل کی آسامی، گریڈ 17 کے سبجیکٹ اسپیشلسٹ کی آٹھ آسامیاں، گریڈ 17 کے ایک انسٹرکٹر فزیکل ایجوکیشن، ایک لیب اسسٹنٹ اور ایک نائب قاصد کی آسامی خالی ہے۔
باجوڑ کے زیادہ تر اسکولوں اور خصوصاَ لڑکیوں کے تعلیمی اداروں میں اسٹاف کی کمی ہے اور ان کی آسامیاں زیادہ خالی ہیں۔
آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ضلع بھر میں عارضی بنیادوں پر پی ٹی سی فنڈز سے 30 ہائیر سیکنڈری اسکولز کھولے گئے ہیں۔ جس میں 21 مردوں کے اسکول اور 9 خواتین کے اسکولز شامل ہیں۔
یہ اسکول ہائی اسکولوں کی بلڈنگز میں شام کے شفٹ میں شروع کیئے گئے ہیں۔
باجوڑ کے عوام کا مطالبہ ہے کہ یہ اسکول مستقل بنیادوں پر شروع کئے جائیں کیونکہ باجوڑ میں ہائیر سیکنڈری اسکولوں کی ضرورت ہیں۔
مستقل بنیادوں پر اسکول شروع کرنے سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ میٹرک کے بعد طلبا وطالبات آسانی کے ساتھ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گے۔ اور دوسرا یہ کہ بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کو مستقل روزگار ملے گا جس سے باجوڑ کی تعلیمی حالت بہتر ہوجائے گی۔
محکمہ تعلیم باجوڑ کے دفتر سے آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت ملنے والی معلومات کے مطابق باجوڑ کے 24 پرائمری اسکول ایسے ہیں جو کہ لیس ایس این ای (Less SNEs) ہیں۔
ان اسکولوں میں دو اساتذہ تعینات ہیں حالانکہ یہ تعداد چھ ہونی چاہئے۔ ان 24 اسکولوں میں مزید 96 اساتذہ کی ضرورت ہے۔
معلومات کے مطابق ضلع باجوڑ کے پرائمری اور مڈل اسکولوں میں رشنلائزیشن پالیسی کے تحت 2200 اساتذہ درکار ہیں۔
رشنلائزیشن پالیسی کے تحت 40 طلباء کیلئے ایک استاد ہونا چاہئے اور یہ پالیسی صوبہ خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع میں نافذ ہے۔
اس حوالے سے مقامی صحافی انوارللہ خان کا کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع میں رشنلائیزیشن پالیسی نافذ نہ ہونے کی وجہ سے طلبا کی پڑھائی کافی متاثر ہورہی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو چاہئیے کہ وہ قبائلی اضلاع کے عوام سے فاٹا انضمام کی وقت کئے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنایا جائے تاکہ تعلیمی میدان میں بھی ان لوگوں کی محرومیاں ختم ہوں۔
خیبر پختونخوا کے ساتھ فاٹا انضمام کے چار سال مکمل ہوگئے ہیں لیکن تاحال یہ پالیسی ضم اضلاع میں نافذ نہ ہوسکی۔
Comments are closed on this story.