Aaj News

جمعرات, دسمبر 19, 2024  
16 Jumada Al-Akhirah 1446  

پاکستان میں پہلی بار نیگلیریا فولیری کی جینو ٹائپنگ مکمل

اس کے متاثرین میں موت کی شرح 98 فیصد ہے، شہری احتیاطی تدابیر اختیار کریں
شائع 27 ستمبر 2022 07:45pm
پانی کے نمونوں میں نیگلیر پایا گیا ہے۔ فوٹو — فائل
پانی کے نمونوں میں نیگلیر پایا گیا ہے۔ فوٹو — فائل

جمیل الرحمن سینٹر فار جینوم ریسرچ اور بائیو کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ جامعہ کراچی نے مل کر جینو ٹائپنگ مکمل کی ہے۔

پاکستان میں پہلی مرتبہ جمیل الرحمن سینٹر فار جینوم ریسرچ، جامعہ کراچی نے یونیورسٹی کے شعبے بائیو کیمسٹری کے تعاون سے انسانی دماغ کھانے والے خطرناک امیبا “نیگلیریا فولیری ’’Naegleria fowleri‘‘ کی جینو ٹائپنگ کی ہے، اس کے متاثرین میں موت کی شرح 98 فیصد ہے، شہری احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

دنیا میں متاثرہ ملکوں میں پاکستان دوسرے درجے پر ہے جب کہ پاکستان میں کراچی سب سے زیادہ متاثرہ ہے جس کی اہم وجہ پانی سپلائی کا ناقص نظام ہے۔

یہ بات بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی کے سربراہ اور کامسٹیک کے کوارڈینیٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے پیر کوبین الاقوامی مرکز جامعہ کراچی میں غیر ملکی ماہرین سے گفتگو کے دوران کہی۔

انھوں نے ماہرین کو بتایا کہ جمیل الرحمن سینٹر فار جینوم ریسرچ کے ڈاکٹر محمد اورنگزیب اور بائیو کیمسٹری شعبے کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر یاسمین راشد نے اس تحقیقی کام کو سرانجام دیا ہے، تحقیق کے لیے نمونے پرائمری ایمیبک میننگو نسفلائٹس کے مرض سے متاثرہ 28 سالہ مریض کی ریڑھ کی ہڈی اوراُس کے گھر کے نل سے حاصل کیے گئے تھے۔

انھوں نے کہا نیگلیریا فولیری ایک حرارت پسند آزاد امیبا ہے جو گرم اور تازہ پانی اور مٹی میں پایا جاتا ہے، نیگلیریا 44 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرم پانی میں رہنا پسند کرتا ہے جب کہ یہ کھارے یا کلورین ملے پانی میں مر جاتا ہے۔

ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری کا کہنا تھا جی یہ خطرناک امیبا دراصل پرائمری ایمیبک میننگو نسفلائٹس مرض کا سبب بنتا ہے، جس سے ملک میں کراچی سب سے زیادہ متاثر ہے کیوںکہ یہاں پر گرم موسم طویل مدت تک رہتا ہے۔

پروفیسر اقبال چوہدری نے کہا جینوٹائپنگ سے یہ ٹائپ 2 مشخص ہو ا ہے، اس تحقیق کی اشاعت ایک ریسرچ جنرل میں بھی ہوچکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نیگلیریا کی جانچ کے لیے کراچی کے 18 مختلف ٹاون سے 40 پانی کے نمونے لیے گئے، جس سے معلوم ہوا کہ تقریبا 71.79 فیصد علاقوں میں وہ پینے کا پانی فراہم کیا جارہا ہے جس میں یا تو کلورین بہت کم ہے یا موجود ہی نہیں ہے۔

ڈاکٹر اقبال نے کہا کہ 28.21 فیصد پانی فراہم کرنے والی لائنوں میں کلورین کی باقیات ہیں مگر عالمی ادارہ صحت کی سفارش کردہ مقدار سے کم ہے۔

انھوں نے کہا کہ منورہ، نارتھ کراچی، نیو کراچی، گلشنِ حدید، ملیر، قائدآباد، کورنگی، کیماڑی، سوہراب گوٹھ، لیاری، اور گولیمار سے لیے گئے پانی کے نمونوں میں نیگلیر پایا گیا ہے۔

karachi

WHO

Drinkable water

karachi univeristy

Genotyping

Naegleria fowleri