ہندو میرج ایکٹ کے تحت ”ہندو“ شادی نہیں کر سکتے
عام طور پر شادی کو خوشی کے ساتھ جوڑا جاتا ہے ،لیکن ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی پشاور کی 25 سالہ کماری (فرضی نام) کیلئے شادی صرف اداسی ، پریشانی اور آنسو ہی کا نام ہے۔ کیونکہ ان کے شوہر نے شادی کے چھ ماہ بعد ہی کماری کو کوئی قانونی حقوق یا مالی مدد دئیے بغیر ہی چھوڑ دیا اور اب وہ اپنے والدین کے ہمراہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
کماری کے مطابق شادی کے چند ہی ہفتے بہترین گزرے اور اس کے بعد بلا کسی وجہ کے شوہر ان پر روزانہ تشدد کرنے لگے، جبکہ ان کے سسر ناجائز مطالبات بھی کیا کرتے تھے۔
کماری نے بتایا کہ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور جہیز میں قیمتی اور مہنگی چیزیں نہ لاسکی اور جو چیزیں جہیز میں لے کر گئیں علیحدگی کے بعد وہ بھی واپس نہیں کی گئیں۔
یہ کہانی صرف کماری کی نہیں، بلکہ خیبرپختونخوا میں کئی ہندو لڑکیوں کو شادی کے بعد پریشانیوں اور مشکلات کا سامنا ہے، جس کی بڑی وجہ ہندو میرج ایکٹ کیلئے خیبرپختونخوا میں رولز آف بزنس کا نہ ہونا ہے ۔
پارلیمنٹ نے سال 2017 میں ہندو میرج ایکٹ منظور کرکے تمام صوبوں کو خود رولز آف بزنس بنانے کی ہدایت کی، لیکن پانچ سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود صوبائی حکومت رولز بنانے میں ناکام ہے، جس کے باعث خیبر پختونخوا میں شادی سے متعلق ہندو برادری کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔
ہند و میرج ایکٹ ایک جائز طریقہ کار وضع کرکے شادی کیلئے سرکاری دستاویزات کی فراہم کو یقینی بناتا ہے، جس سے ازادواجی حیثیت کی تصدیق قانونی طور پر ہوسکے۔
یہ ایکٹ ایک جائز ہندو شادی کیلئے شرائط طے کرتا ہے جس میں 18 سال سے زائد عمر ہونا، شادی کیلئے باہمی رضامندی اور پھر تعداد ازدواج پر پابندی شامل ہیں۔ ہندو میرج ایکٹ 2017 علیحدگی یا طلاق کے حالات کی بھی تفصیل دیتا ہے جبکہ موجودہ تمام ہندو شادیوں کو باقاعدہ قانونی جواز فراہم کرتا ہے۔
محکمہ شماریات کی ویب سائٹ پر دستیاب سال 2017 کی مردم شماری کے مطابق خیبرپختونخوا میں 4 ہزار 973 ہندو رہائش پذیر ہیں، جو صوبے کی کل آبادی کا اعشاریہ 3 فیصد بنتا ہے، جبکہ نادرا سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق خیبرپختونخوا سے 5 ہزار 813 ہندو رجسٹرڈ ہیں، تاہم ہندو برادری کا دعویٰ ہے کہ خیبرپختونخوا میں 20 ہزار سے زائد ہندو رہائش پذیر ہیں، لیکن اکثر نے ابھی تک نادرا کے پاس رجسٹریشن نہیں کی۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے آل پاکستان ہندو رائٹس موومنٹ کے سربراہ اور مذہبی سکالر ہارون سرب دیال سمجھتے ہیں کہ ہندو میرج ایکٹ کا پارلیمنٹ سے پاس ہونا ان کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں، کیونکہ ہندو برادری نے بڑے جدوجہد کے بعد شادی سے متعلق حقوق کو قانونی شکل دینے میں کامیابی حاصل کی۔
ہارون سرب دیال کے مطابق ہندو میرج ایکٹ ایک واضح قانون ہے جس میں شادی کیلئے شرائط اور شادی کی رجسٹریشن شامل ہیں، جو ازدواجی حیثیت کی تصدیق کیلئے ضروری ہے، تاہم رولز میں تاخیر کی وجہ سے ہندو برادری اس ایکٹ کے ثمرات سے تاحال محروم ہیں۔
ہارون سرب دیال نے قانون سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ قانون میں واضح طور پر لکھا کیا گیا ہے کہ علیحدگی یا ناچاقی کی صورت کو شوہر پابند ہے کہ بیوی یا پھر بچوں کو اپنی آمدنی سے ایک مخصوص حصہ دے گا، لیکن بدقسمتی سے رولز نہ ہونے پر شادی شاہ لڑکیوں کی زندگیاں داؤ پر لگائی جارہی ہیں۔
اقلیتوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی نجی تنظیم مائنارٹیز رائٹ گروپ یو کے کی جانب سے ایک ریسرچ رپورٹ (مائنارٹیز چیلنجز) میں بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ خیبر پختونخوا میں ہندو میرج ایکٹ کے رولز نہ ہونے کی وجہ سے شادی شدہ لڑکیاں مشکل سے گزر رہی ہیں، جبکہ علیحدگی یا طلاق کی صورت میں اکثر شوہر بیوی اور بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہے اور نہ ہی ان کے کسی قسم کے اخراجات برداشت کرنے ذمہ داری لیتے ہیں، جس وجہ سے خواتین اذیت کا شکار رہتی ہیں۔ جبکہ رولز کی عدم موجودگی کے باعث علیحدگی یا طلاق کی صورت میں خاتون کو تاحال دوسری شادی کی بھی اجازت نہیں۔
پشاور ہائیکورٹ کے ترجمان کے ذریعے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق خیبر پختونخوا کے فیملی کورٹس میں موجودہ وقت 15 ہزار 371 کیسز زیر سماعت ہیں جس میں سینکڑوں مقدمات ہندو برادری کے بھی ہیں جنہوں نے شادی کی رجسٹریشن، طلاق، دیکھ بھال سمیت شادی سے متعلق دیگر امور کیلئے کیسز دائر کررکھے ہیں۔
پشاور ہائیکورٹ کے وکیل افتخار حسین کا کہنا ہے کہ شادی اور شادی کی رجسٹریشن دونوں مختلف عمل ہے اور شادی کی رجسٹریشن نہ ہونے کے باوجود ہندو شادی قانونی ہے، تاہم رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے کئی مشکلات درپیش آتی ہیں، جس میں بیوی کا شوہر کے نام سے قومی شناختی کارڈ بنانا اور پھر شادی کی تصدیق شامل ہیں، کیونکہ رجسٹریشن نہ ہو تو قانونی طور پر شادی کی تصدیق نہیں ہوسکتی اور جب شادی کی تصدیق نہ ہو تو قومی شادی کارڈ بیوی کیلئے شوہر کے نام سے بنانا مشکل ہوجاتا ہے۔
پشاور میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے روہن دیال نے بتایا کہ شادی کون کرے گا ، کیسے کرے گا اور پھر رجسٹریشن کون اور کیسے کرے گا، یہ سب رولز سے واضح ہوں گے، تاہم رولز تاحال نہیں بنے جس کے باعث قومی شناختی کارڈ میں بھی پریشانی کا سامنا ہے، کیونکہ شادی پتر نہ ہونے کی وجہ سے یونین کونسل کے سطح پر کئی دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔
افتخار حسین ایڈووکیٹ نے مزید بتایا کہ کسی مذہب سے تعلق رکھنے والے شادی سے متعلق تمام معاملات کیلئے فیملی کورٹ سے رجو ع کرسکتے ہیں، جہاں پر اپنے حقوق کو ثابت کرکے ریلیف لے سکتے ہیں، تاہم بیوی کو شوہر کے نام سے شناختی کارڈ کے حصول کیلئے آئین پاکستان کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائیکورٹ سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔
وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اقلیتی امور وزیر زادہ کا مؤقف ہے کہ محکمہ بلدیات نے رولز پر کافی حد تک کام مکمل کرلیا ہے، تاہم ہندو برادری کے رہنماؤں کے آپس میں رولز پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
وزیر زادہ کا کہنا تھا کہ دیگر مذاہب کی طرح ہندوؤں میں بھی مختلف فرقے اور گروہ ہیں اور ہر ایک کی اپنی رائے ہے، جس کی وجہ سے رولز بنانے میں تاخیر ہورہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہندو برادری کے رہنماؤں کیساتھ مشاورت جاری ہے اور جلد ان کی مشاورت سے رولز تیار کرکے عمل میں لائے جائیں گے۔
ہارون سرب دیال نے بتایا کہ ہندو کمیونٹی کے رہنماؤں نے آپس میں مشاورت کرکے خود رولز کا ایک مسودہ تیار کرکے حکومت کو دو سال قبل پیش کیا ہے، تاہم حکومت نے ہم سب کو دوبارہ مل بیٹھ کر نئے رولز تیار کرنے کی دعوت دی ہے، جو صرف وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
ہارون سرب دیال نے بتایا کہ ہندو لڑکے لڑکیاں اس وقت ہندو مذہب کے مطابق ہی شادیاں کررہے ہیں، لیکن چند مہینے بعد ہی شادیاں مسائل کا شکار ہوجاتی ہیں کیونکہ شادی کی کوئی قانونی حیثیت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کررہا۔ ہارون سرب دیال نے رولز کیلئے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔
کماری نے اب فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے حقوق کیلئے فیملی کورٹ کے ساتھ ساتھ پشاور ہائیکورٹ سے بھی رجوع کرے گی۔
اس حوالے سے ہندو برادری کے رہنماؤں کا ماننا ہے کہ ہر کسی کو انفرادی طور پر عدالتوں کا رخ کرنے سے بہتر ہے کہ حکومت جلد رولز آف بزنس کو حتمی شکل دے کر اس پر عملدرآمد شروع کرے، تاکہ مسئلہ کا ایک ہی بار ہمیشہ کیلئے حل نکل سکے کیونکہ عدالتوں میں بھی کیسز نمٹانے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔
Comments are closed on this story.