سندھ : مایوس کسانوں نےسیلاب سے بچاؤ کا قدیم طریقہ اپنالیا
پاکستان میں ہونے والی حالیہ بارشوں میں سندھ کے ضلع بدین کو بہت زیادہ نقصان ہوا ہے، بالخصوص بدین کی تحصیل ٹنڈو باگو کی مختلف یونین کونسلز شدید متاثر ہوئی ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ میرپور خاص ضلع کے ڈرینیج پانی کا اخراج ایم ایم ڈی سیم نالے میں ہوتا ہے اور بعد میں پران سیم نالے ملتا ہے، دونوں کا پانی بعد میں ایل بی او ڈی میں شامل ہوکر سمندر کی طرف جاتا ہے۔
ایل بی او ڈی میں اس وقت پانی کا بہت زیادہ بہاؤ ہے، جبکہ پران اور ایم ایم ڈی بھی بڑے بہاؤ کا شکار ہیں۔
تحصیل ٹنڈو باگو میں نقصان کی اصل وجہ پران اور ایم ایم ڈی سیم نالے میں آٹھ روز قبل پڑنے والا شگاف ہے، جس کے باعث پانی اس وقت تحصیل ٹنڈو باگو کے یونین کونسلز ملکانی، سمن سرکار، جھرکس اور دیگر میں پہنچ چکا ہے اور شدید نقصان کا باعث بن رہا ہے۔
سینکڑوں دیہات اس وقت سیلابی پانی کے باعث خالی ہوچکے ہیں جبکہ ہزاروں افراد نقل مکانی کر چکے ہیں، آٹھ روز قبل آر ڈی تین اور سیہون کے درمیان دو شگاف پڑے تھے، تین دن میں 300 فٹ چوڑے ایک شگاف کو پُر کرلیا گیا، جبکہ دو سے ڈھائی سو فٹ چوڑا ایک اور شگاف آٹھ روز گزر جانے کے باوجود بھی پر نہیں کیا جاسکا۔
پانی بہت تیزی سے مختلف دیہاتوں کی طرف بڑھ رہا ہے اور اگر اب بھی اس پانی کو روکا نہیں گیا یا اس کے شگاف کو پُر نہیں کیا گیا تو پانی مزید علاقوں میں تباہی پہنچائے گا، اور سمن سرکار سمیت مختلف دیہات اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔
ضلع بدین میں سیم نالے کے شگاف کو پُر کرنے کیلئے پرانے دور کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے، لکڑیاں درمیان میں لگائی جاتی ہیں انہیں باندھ دیا جاتا ہے، بیچ میں مٹّی کے تھیلے لگا کر شگاف کو پُر کیا جاتا ہے۔
ساتھ سے آٹھ روز گزر جانے کے باوجود بھی انتظامیہ کی جانب سے شگاف پُر نہ کرنے نے سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے ، علاقہ مکینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پانچ کلو میٹر کے درمیان مٹی سے پلاسٹک کے بیگ بھر کر تقریباً ایک لاکھ سے زائد تھیلیوں سے یہاں دیوار تعمیر کی تھی تاکہ پانی علاقے میں داخل نہ ہو، لیکن دیوار میں کٹ لگ گیا اور شگافوں کے باعث سیکڑوں دیہات زیر آب آ گئے ۔
علاقہ مکینوں کا یہی الزام ہے کہ محکمہ ایریگیشن کی جانب سے سوچی سمجھی سازش ہے جس کے تحت اس پانی کو بہایا گیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی میرپورخاص کی ایک بااثر شخصیت اپنے مختلف بیانات میں کہہ چکی ہے کہ بدین کے مختلف علاقوں سے کٹ دیا جائے، بالخُصوص اس جگہ جو ایل بی او ڈی اور سیم نالے کا زیرو پوائنٹ ہے۔
لیکن وہاں سے اگر کٹ دیا جاتا ہے تو بدین کے علاوہ تھرپارکر کا علاقہ بھی زیر آب آئے گا، جس کے باعث علاقے مکین کٹ لگانے نہیں دے رہے۔
علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ ابھی جو کٹ لگایا گیا اسے دیکھ کر پہلے لگا کہ خود بخود لگا ہے، لیکن بعد میں اس بات کی تصدیق ہوئی کہ کٹ لگایا گیا ہے، کیونکہ، “ ہم نے کشتی چلانے والے ایک شخص کو دیکھا جو کٹ لگا رہا تھا اور پھر پانی میں چھلانگ لگا کر بھاگ گیا“۔
اس کے کپڑوں میں سے ملنے والے شناختی کارڈ سے تصدیق ہوئی کہ اس کا تعلق ضلع سانگھڑ سے ہے جبکہ اس سمیت 9 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج ہوگئی ہے، لیکن تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی ۔
علاقہ مکینوں کا یہی کہنا تھا کہ ہم پہلے بھی کہہ رہے تھے کہ کٹ لگایا جائے گا، یہ سازش ہے کیونکہ میرپورخاص کے مختلف علاقوں کو بچانے کے لئے بدین کو ڈبویا جا رہا ہے اور اب بھی ان کا یہی خیال ہے کہ بااثر شخصیت محکمہ ایریگیشن کے افسران پر بھاری ہیں اور ان کو یہ کٹ بند کرنے نہیں دے رہے ہیں۔
دو روز قبل بھی علاقہ مکینوں کا محکمہ ایریگیشن کے افسران کے ساتھ تصادم ہوا تھا اور علاقہ مکینوں کی جانب سے الزام لگایا گیا تھا کہ محکمہ ایریگیشن شگاف پُر کرنے کے کام میں کام میں سست روی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
علاقہ مکینوں اور آب پاشی کے افسران سے بات چیت کے بعد لگتا ہے کہ کام انتہائی سست روی کا شکار ہے جو جاری تو ہے لیکن شگاف پر نہ کرنے کے باعث سیکڑوں دیہات اس وقت زیر آب آچکے ہیں اور پانی تیزی سے تعلقہ ٹنڈو باگو اور ملحقہ علاقوں پر اثر انداز ہورہا ہے۔ علاقہ مکین ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی کر کے راستوں پرآ چکے ہیں۔
اس سے قبل اسی سیم نالے کی وجہ سے بدین کا دیہات حیات خاصخیلی، جس کا آدھا حصہ میر پور خاص جھڈو شہر میں آتا ہے اور نصف بدین میں آتا ہے، وہ مکمل طور پر ڈوب چکا ہے، لیکن اب حالات یہ ہیں کہ جتنے بھی دیہات ہیں مکمل طور پر پانی میں آچکے ہیں۔
پانی گھروں کی چھتوں تک آچکا ہے، پرانی تکنیک کے حساب سے لکڑیوں کا بند باندھا جارہا ہے، اگر جدید مشینیں ہوتیں تو یہ دنوں میں پُر ہوجاتا لیکن 8 روز گزرنے کے باجود بھی اسے پُر نہیں کیا جارہا، جس کے باعث سیلابی پانی مسلسل مختلف دیہاتوں کو ڈبو رہا ہے، علاقہ مکین مسلسل احتجاج کر رہے ہیں اور الزام عائد کررہے ہیں کہ اس کے پیچھے میرپور خاص کی بااثر شخصیت کا ہاتھ ہے جو رکن قومی اسمبلی بھی ہیں۔ اسی وجہ سے بار بار اس شگاف کو پر نہیں کیا جاتا۔
بارشیں تو رک چکی ہیں لیکن ضلع بدین کے مختلف علاقے اس وقت بہت زیادہ متاثر ہیں، بالخصوص ٹنڈو باگو کی مختلف یونین کونسلز شدید متاثر ہیں اور انتظامیہ کی جانب سے کیا جانے والا ریسکیو آپریشن بھی انتہائی سستی کا شکار ہے۔
علاقہ متاثرین کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے انہیں راشن، ٹینٹ یا مچھر دانیاں کچھ بھی فراہم نہیں کیا جارہا اور نہ ہی ان کے کھانے پینے کا کوئی بندوبست کیا جا رہا ہے، ہم راستوں پر بے آسرا بے یارومددگار پڑے ہوئے ہیں لیکن کہیں بھی انتظامیہ کی جانب سے آپریشن ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ۔
اُن کے مطابق کہ 2 سے 3 روز میں شگاف پُر نہ کیا گیا تو ٹنڈو باگو کا نصف حصہ پانی میں ڈوب جائے گا۔
سال 1999، 2003 اور 2010 میں آنے والے سیلابوں سے بھی ضلع بدین کو بہت زیدہ نقصان پہنچا تھا، جس کی وجہ یہی تھی کہ پانی کا دباؤ بہت زیادہ ہونے سے سیم نالے ٹوٹ گئے تھے، اس وقت بھی بدین کو بارشوں سے زیادہ سیم نالوں نے نقصان پہنچایا ہے۔
علاقہ مکینوں کا مطالبہ ہے کہ انتظامیہ فوری اقدامات کرتے ہوئے ان شگافوں کو پُر کرے تاکہ پانی مزید علاقوں کو نقصان نہ پہنچا سکے۔
Comments are closed on this story.