Aaj News

پیر, نومبر 25, 2024  
22 Jumada Al-Awwal 1446  

افغانستان میں القاعدہ سربراہ کی ہلاکت کے بعد طالبان کی پراسرار خاموشی

اسامہ بن لادن کے مارے جانے کے بعد طالبان کے لیے یہ دوسرا سب سے بڑا دھچکا ہے۔
اپ ڈیٹ 04 اگست 2022 11:44pm
تصویر: آرٹ ورک/سفیرالہٰی قریشی
تصویر: آرٹ ورک/سفیرالہٰی قریشی

افغانستان میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بعد طالبان کے سرکردہ رہنما سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ کابل میں امریکی ڈرون حملے کا جواب کیسے دیا جائے۔

امریکہ نے اتوار کو الظواہری کو ایک ڈرون حملے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا، الظواہری کابل میں اپنے ٹھکانے پر بالکونی میں کھڑے تھے۔

امریکی حکام کا کہنا تھا کہ اسامہ بن لادن کے مارے جانے کے بعد طالبان کے لیے یہ دوسرا سب سے بڑا دھچکا ہے۔

طالبان کی جانب سے الظواہری کی موت کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔

القاعدہ کے دیرینہ ساتھی گروپ کے عہدیداروں نے ابتدائی طور پر اتوار کو ہونے والے ڈرون حملے کی تصدیق کی، لیکن یہ بھی کہا کہ جس گھر کو نشانہ بنایا گیا وہ خالی تھا۔

کابل میں ایک اہم عہدے پر فائز طالبان رہنما نے کہا کہ “اعلیٰ سطح پر ملاقاتیں ہو رہی ہیں کہ آیا انہیں ڈرون حملے پر ردعمل ظاہر کرنا چاہیے اور اگر وہ فیصلہ کرتے ہیں تو پھر مناسب طریقہ کیا ہے”۔

مذکورہ اہلکار، جنہوں نے شناخت ظاہر کرنے سے انکار کیا، اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ ظواہری اس گھر میں موجود تھے جس پر میزائل گرا۔

ایک سال قبل امریکی حمایت یافتہ حکومت کی شکست کے بعد، طالبان کے رد عمل کے اہم اثرات مرتب ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ گروپ بین الاقوامی قانونی حیثیت، اور اربوں ڈالر کے منجمد فنڈز تک رسائی چاہتا ہے۔

الظواہری ایک مصری ڈاکٹر تھے جنہیں 11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر ہونے والے حملوں میں قریبی طور پر ملوث مانا جاتا تھا، اور وہ دنیا کے سب سے زیادہ مطلوب افراد میں سے ایک تھے۔ کابل میں ان کی موت کے بارے میں سوالات اٹھتے ہیں کہ آیا انہیں طالبان کی جانب سے پناہ فراہم کی گئی تھی۔

طالبان نے 2020 میں امریکی زیر قیادت افواج کے انخلاء کے معاہدے کے ایک حصے کے طور پر امریکہ کو یقین دلایا تھا کہ وہ دوسرے عسکریت پسند گروپوں کو پناہ نہیں دیں گے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ طالبان نے الظواہری کی میزبانی اور پناہ دے کر معاہدے کی “سخت خلاف ورزی” کی ہے۔

دوحہ میں مقیم اقوام متحدہ میں طالبان کے نامزد نمائندے سہیل شاہین نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں طالبان کے موقف کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔

انہوں نے ایک پیغام میں صحافیوں کو بتایا کہ “میں کابل سے تفصیلات اور ردعمل کا انتظار کر رہا ہوں۔”