ملک میں تقریباً 25 فیصد مریض اپنے لیے ادویات خود تجویز کرتے ہیں: طبی ماہرین
کراچی: پاکستان میں تقریبا 25 فیصد مریض اپنے لیے ادویات خود تجویز کرتے ہیں اور یہ ادویات براہ راست میڈیکل اسٹورز سے خرید لیتے ہیں، خاص طور پر اینٹی بائیوٹک ادویات کا بغیر ڈاکٹری نسخے کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اکثر بیماریوں میں یہ ادویات بے اثر ثابت ہونا شروع ہوگئی ہیں۔
ان خیالات کا اظہار یونیورسٹی اَف ہیلتھ سائنسز لاہور کے وائس چانسلر اور پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن (پی سی آئی ایم) کے صدر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم نے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
پروفیسر جاوید اکرم نے اس موقع پر بتایا کہ 6 مئی سے کراچی میں پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن کی تیسری کانفرنس شروع ہو رہی ہے جس کے دوران 92 سائنٹیفک سیشن ہوں گے جن میں ڈاکٹروں کو سائنسی بنیادوں پر ثابت شدہ ادویات کے استعمال کی جانب راغب کیا جائے گا۔
آج نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے عیسی لیب کے سی ای او ڈاکٹر فرحان عیسٰی عبداللہ نے کہا کہ پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن کے حوالے سے ہونیوالی بین الاقوامی کانفرنس تاریخی ہوگی جس سے ریسرچ کا شعبہ ترقی کریگا انھوں نے بتایا کہ کانفرنس میں پوری دنیا سے ڈاکٹرز شریک ہوں گے جبکہ بیشتر ڈاکٹر آن لائن بھی شرکت کریں گے۔
پروفیسر جاوید اکرم کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں بدقسمتی سے متعدی اور غیر متعدی امراض بڑھتے جا رہے ہیں، ملک میں ہر دوسرا بالغ فرد ہائی بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا ہے اور پاکستان کی تقریباً 25 فیصد آبادی شوگر کے مرض میں مبتلا ہے، جب تک ان مریضوں کو سائنسی تحقیق پر مبنی ادویات نہیں دی جائیں گی ان کا علاج ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ پاکستان میں تقریبا 42 فی صد بچے وزن کی زیادتی یا موٹاپے کا شکار ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ برسوں میں یہ بچے بھی ہائی بلڈ پریشر اور شوگر یعنی ذیابطیس کا شکار ہوسکتے ہیں۔
بچوں میں شوگر کے مرض میں مبتلا ہونے کی بڑھتی ہوئی شرح کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ تحقیق سے یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ دس سال کی عمر میں ذیابطیس کے مرض کا شکار ہونے والے اکثر بچوں کو انسولین کی ضرورت نہیں ہوتی اور ایسے بچوں میں وزن کم کرنے سمیت کھانے والی ادویات کے ذریعے شوگر کو کنٹرول کر کے انہیں صحت مند رکھا جا سکتا ہے۔
انہوں نے اس موقع پر بتایا کہ پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن اپنی کانفرنس کے دوران سائنسی طور پر ثابت شدہ ادویات کا سرچ انجن شروع کرنے جا رہی ہے جس کے ذریعے ڈاکٹروں کو مریضوں کی علامات اور ان کے ٹیسٹ رزلٹ کو سامنے رکھ کر ان کے لیے موزوں ترین ادویات تجویز کرنے میں آسانی ہوگی۔
ان کا کہنا تھا سائنسی تحقیق کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کو قرآن پاک کی تعلیم اور اخلاقیات کی تربیت بھی فراہم کی جا رہی ہے تاکہ وہ مریضوں کو اپنے جیسا انسان سمجھ کر ہمدردی کے ساتھ ان کا علاج کر سکیں۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پی سی آئی ایم کے رہنما پروفیسر ڈاکٹر آفتاب محسن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سالانہ ایک ارب انجکشن لگائے جاتے ہیں، جن میں سے تقریبا 90 فیصد غیر ضروری طور پر لگائے جاتے ہیں جبکہ 70 فیصد انجیکشن غلط طریقوں سے لگائے جاتے ہیں۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر عزیز الرحمن کا کہنا تھا کہ ان کی کانفرنس میں پاکستان کے مختلف شہروں سمیت مشرق وسطیٰ، یورپ کے مختلف ممالک اور امریکہ سے ماہرین صحت شرکت کر رہے ہیں جو کہ اپنی جدید تحقیق کے ذریعے سائنسی طور پر ثابت شدہ ادویات کے استعمال کے حوالے سے اپنی تحقیق پیش کریں گے۔
Comments are closed on this story.