کیا خان صاحب سرپرائز کے لیے تیار ہیں؟
سیاسی سرگرمیاں عروج پر، تحریک عدم اعتماد اختتامی مرحلے میں داخل، “سرپرائز” شروع لیکن اہم سوال یہ کہ کون کس کو اصل اور بڑا سرپرائز دے گا؟
اس وقت پاکستان میں سیاسی جنگ عروج پر ہے۔ یہ سیاسی جنگ کون جیتے گا، امید کی جارہی ہے کہ چار اپریل تک یہ فیصلہ ہوجائے گا۔ اقتدار کی اس جنگ میں کس کی جیت ہوگی اور ہار کس کا مقدر ٹھہرے گی؟ اس میں اب زیادہ وقت نہیں رہا۔
اگر نمبرز گیم پر نظر ڈالی جائے تو اس وقت قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے پاس 172 نشستیں ہیں، جبکہ اپوزیشن، ناراض اراکین اور چند اتحادیوں کو ملاکر تعداد 169 تک پہنچ چکی ہے۔ عدم اعتماد کی صورت عددی برتری کس کے پاس ہوگی؟ اصل پتے کیا ہیں؟ کھیل میں کون کون سی چالیں باقی ہیں؟ گیم اِز اوور یا پارٹی ابھی شروع ہوئی ہے؟ یہ دیکھنے کے لیے صرف چند دن انتظار کرنا ہوگا۔
ایک طرف اتحادیوں کی اپوزیشن سے ملاقاتیں اور یقین دہانیاں، دوسری طرف کبھی نہ جھکنے والے، کبھی بلیک میل نہ ہونے والے عمران خان ہیں، جنہوں نے اب اتحادیوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوکر چوہدری پرویز الٰہی کو وزارتِ اعلیٰ کے لیے نامزد کردیا اور “وسیم اکرم پلس” یعنی عثمان بزدار سے استعفیٰ لے لیا۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عثمان بُزدار کی صورت میں اتنی بڑی قربانی بھی وزیراعظم کو بچاسکے گی؟
کہا جاتا ہے کہ پنجاب جس کے پاس ہے، پاکستان پر اسی کا راج ہے۔ وزیراعظم نے اپنی پارٹی اراکین کو ایک طرف رکھ کر پرویز الٰہی کو جس معرکے میں اُتارا ہے، وہ معرکہ سر کرنا اتنا آسان نہیں۔ کیونکہ اب تک کی صورتِ حال کے مطابق ایک طرف (ق) لیگ خود تقسیم کا شکار ہوگئی ہے۔ جبکہ دوسری طرف سیاست کے اصل کھلاڑی آصف علی زرداری کو (ق) لیگ کا رویہ اچھا نہیں لگا اور کہہ رہے ہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ ابھی مقابلہ ہونا باقی ہے۔
پنجاب کا یہ معرکہ لڑنا اتنا آسان نہیں رہا جس میں کئی کھلاڑی شامل ہوچکے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں کُل اراکین کی تعداد 371 ہے جس میں تحریک انصاف کے 183 اور مسلم لیگ (ق) کے10 اراکین ہیں جس کے بعد یہ تعداد 193بنتی ہے۔ جبکہ (ن) لیگ165، پیپلز پارٹی 7، آزاد اراکین 5 اور ایک رکن کا تعلق راہِ حق پارٹی سے ہے۔
اس طرح اپوزیشن کے اراکین کی تعداد 178بنتی ہے اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو 15 اراکین کی برتری حاصل ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پنجاب میں ایک اور اہم کھلاڑی علیم خان ہیں، جو عملاً پی ٹی آئی سے راستے جدا کرچکے ہیں اور پرویز الٰہی کے حق میں جانا ان کے لیے آسان نہیں تاہہم یہ ممکن ہے کہ وہ ایک درجن اراکین کو اپنے ساتھ شامل کرکے اپنے ہی کپتان یعنی عمران خان کو بڑا سرپرائز دے سکتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پرویز الٰہی پی ٹی آئی کی سپورٹ سے باآسانی وزیراعلیٰ بن سکتے ہیں؟ یقیناً یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہ امکان بھی بہت زیادہ ہے کہ پی ٹی آئی کے دیگر اراکین بھی ان کی نامزدگی سے زیادہ خوش نہ ہوں، کیونکہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو خود کو وزارتِ اعلیٰ کا امیدوار تصور کرتے تھے۔ وہ لوگ جو خود وزرات اعلیٰ کے امیدوار بننے کے خواہشمند تھے یا پھر وہ نظریاتی کارکن جو ہر صورت پی ٹی آئی کا ہی وزیراعلیٰ دیکھنا چاہتے ہیں، کیا ان کے لیے کسی دوسری پارٹی کی شخصیت کے حق میں ووٹ ڈالنا آسان ہوگا؟
دوسری طرف حکومت اور اپوزیشن تحریک عدم اعتماد سے قبل پاور شو دکھانے اور اپنی اکثریت ثابت کرنے میں سر گرم ہیں۔ ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ وزیراعظم نے اپنے جلسے میں “سرپرائز”دینے کا اعلان کر رکھا تھا۔ انہوں نے جلسے میں کاغذ لہراتے ہوئے ایک خط کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ انہوں نے جو الزام لگایا وہ بہت سنگین تھا۔اس ضمن میں شہباز شریف نے جوابی طور پر مطالبہ کردیا کہ عمران خان خط پوری قوم کو دکھائیں، وہ اسے پارلیمنٹ میں لے کر آئیں۔ اگر یہ سچ ہوا تو میں عمران خان کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ پیپلز پارٹی نے بھی کہا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت نیا وزیراعظم اپنے آفس سے مبینہ ساز ش اور خط سے متعلق آرڈر جاری کرے گا۔
یہ الزامات اسی کھیل کا حصہ ہیں اور اس کھیل میں ابھی کئی دلچسپ اور سنسنی خیز موڑ آنے ہیں۔
آخر کیا ہوگا؟ حکومت اپوزیشن کو “سرپرائز”دے گی یا اپوزیشن حکومت کو؟ سیاست میں کچھ بھی ناممکن نہیں لیکن یہ سوالات اس وقت ذہن میں ہیں کہ سیاسی افق میں مستقبل کا سیاسی منظر نامہ کیا ہوگا؟ اپوزیشن بیک فٹ پر جائے گی یا خان صاحب اقتدار سے آؤٹ ہوں گے؟ اس لیے دیکھیں اور انتظار کریں۔
Sana Arshad is a researcher on Aaj News current affairs programme ‘Faisla Aap Ka’. She tweets at @sana_7223.
Comments are closed on this story.