روسی تیل پر امریکی پابندی سے کیا ہوگا؟
امریکہ میں پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ اوسط قیمت منگل کو ریکارڈ 4.17 ڈالر فی گیلن تک پہنچ گئی ہے۔
تاہم بائیڈن انتظامیہ کو تیل کی درآمد پر پابندی سمیت روس پر مزید پابندیاں عائد کرنے کیلئے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔
جرمن چانسلر اولاف شولز نے واضح کیا کہ جرمنی روس کی توانائی کا یورپ کا واحد سب سے بڑا صارف ہے اور کسی پابندی میں شامل ہونے کا کوئی منصوبہ نہیں رکھتا۔
اس کے جواب میں امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین نے اشارہ دیا کہ امریکہ تنہا یا اتحادیوں کے چھوٹے گروپ کے ساتھ کارروائی کر سکتا ہے۔
نائب وزیر خارجہ شرمین نے کہا کہ "ہر ملک نے بالکل ایک ہی کام نہیں کیا ہے، لیکن ہم سب ایک ایسی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں، جس پر ہم سب نے اتفاق کیا ہے۔"
ایوان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے کہا کہ روسی تیل پر پابندی کے باوجود بائیڈن انتظامیہ اور کانگریس "امریکی خاندانوں اور پوٹن کے حملے سے پیدا ہونے والے ہمارے شراکت داروں کیلئے توانائی کے زیادہ اخراجات کو کم کرنے پر لیزر پر مرکوز ہیں۔"
واضح رہے کہ نینسی پیلوسی نے روسی تیل پر امریکی پابندی کی حمایت کا اظہار کیا ہے، اس کے باوجود بائیڈن کی جانب سے امریکی اتحادیوں کے اسٹریٹجک ذخائر سے 60 ملین بیرل تیل چھوڑنے کے اقدام کا بھی حوالہ دیا.
تاہم جس میں امریکی ذخائر سے 30 ملین بیرل بھی شامل ہیں تاکہ عالمی منڈیوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کی جا سکے۔
Comments are closed on this story.