Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

نور مقدم قتل کیس: مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت سنادی گئی

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت کے جج عطاء ربانی نے نورمقدم قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو موت کی سزا سنائی جبکہ کیس کے شریک ملزمان جمیل اور افتخار کو 10،10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
اپ ڈیٹ 24 فروری 2022 08:01pm

رپورٹ: آصف نوید

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے نور مقدم قتل کیس کا محفوظ فیصلہ سنا تےہوئے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت سنادی۔

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت کے جج عطاء ربانی نےنورمقدم قتل کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنادیا۔

عدالت نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو موت کی سزا سنائی جبکہ کیس کے شریک ملزمان جمیل اور افتخار کو 10،10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

عدالت نے مجرم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر ، والدہ عصمت آدم جی اور تھراپی ورکس کے تمام ملازمین کو بری کردیا۔

دورانِ سماعت ملزم ظاہر جعفر، اس کے والد ذاکر جعفر اور گھریلو ملازمین کو عدالت میں پیش کیا گیا، ملزمان کو جیل کی وین میں اڈیالہ جیل سے ایف ایٹ کچہری لایا گیا۔

جج عطاء ربانی نے پولیس کو حکم دیا کہ میں نے ملزمان سے بات کرنی ہے، سب باہر چلے جائیں۔

جج کے حکم پر کمرہ عدالت سے میڈیا، وکلاء اور غیر متعلقہ افراد کو باہر نکال دیا گیا۔

عدالت پہنچنے پر مقتولہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سب پُرامید ہیں کہ نور مقدم قتل کیس میں آج انصاف ملے گا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ پُر امید ہوں کہ قاتل اور جرم کرنے والوں کو سزائیں ملیں گی اور قانون کی بالا دستی ہو گی، دعا ہے کہ نور مقدم قتل کیس میں فیصلہ انصاف پر مبنی ہو۔

یادرہے کہ اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں نور مقدم قتل کیس کا ٹرائل 4 ماہ 8 دن جاری رہا، گواہوں کے بیانات قلمبند ہوئے، شہادتیں رکارڈ ہوئیں، جرح کے بعد وکلاء نے حتمی دلائل دیئے اور پھر عدالت نے 22 فروری کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کیس میں نامزد ملزم ظاہر جعفر پر الزام ہے کہ اس نے 20 جولائی 2021 کو اپنے گھر میں نور مقدم کو قتل کیا، پولیس نے ظاہر جعفر کو خون آلود قمیض میں سیکٹر ایف سیون اسلام آباد کے گھر سے گرفتار کیا اور آلہ قتل بھی برآمد کیا۔

پولیس تفتیش میں معلوم ہوا کہ مرکزی ملزم ظاہرجعفر وقوعہ سے قبل اپنے والدین ذاکرجعفر اورعصمت آدم جی سے مسلسل رابطے میں رہا۔

پولیس کے مطابق والدین نے پولیس کو اطلاع دینے کی بجائے تھراپی ورکس سے رابطہ کیا، تھراپی ورکس کی ٹیم جائے وقوعہ پہنچی تو ملزم ظاہرجعفر نے مبینہ طور پر تھراپی ورکس کے ملازم امجد کو چاقو کے وار کرکے زخمی کردیا، پولیس کے پہنچنے تک نورمقدم کا قتل ہوچکا تھا اور سربریدہ لاش موجود تھی۔

شواہد چھپانے اور جرم میں معاونت کے الزام میں پولیس نے قتل کے 5 روز بعد 25 جولائی کو ظاہر جعفرکے والدین ذاکرجعفر اور عصمت آدم جی سمیت دیگر ملزمان کو بھی گرفتار کرلیا۔

واقعےکی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آئی جس میں نور مقدم کو پہلی منزل سے چھلانگ لگا کر زخمی حالت میں گھرسے نکلنے کی کوشش کرتے اور ظاہرجعفر کو دست درازی کرتے دیکھا گیا۔

فوٹیج میں ملزم کے ملازمین بھی نظر آئے جنہوں نے کسی موقع پر ملزم کو روکنے یا نورمقدم کو بچانے کی کوشش نہیں کی۔

اس کیس کا باقاعدہ ٹرائل20 اکتوبر2021 سے شروع ہوا اور25سماعتوں پر مشتمل رہا، پہلی پیشی سے ہی ملزم کبھی پولیس اور کبھی عدالت کے جج سے الجھتا اور کمرہ عدالت میں عجیب وغریب حرکتیں کرتا رہا۔

دوران سماعت مرکزی ملزم نے خود کو ذہنی مریض ثابت کرنے کیلئے ہرحربہ آزمایا، پولیس بھی ملزم کو کبھی اسٹریچر تو کبھی ویل چیئرپرعدالت لاتی رہی۔

ملزم کے وکیل نے طبی معائنے کیلئےدرخواست بھی دائرکی جسے عدالت نے مسترد کردیا تاہم جیل کی میڈیکل ٹیم نے ظاہرجعفر کو جسمانی اور ذہنی طور پر مکمل فٹ قرار دے دیا۔

19 گواہوں پرجرح مکمل ہونے کے بعد ملزمان کو ضابطہ فوجداری دفعہ 342 کے تحت سوالنامہ جاری کیا گیا جس میں ظاہرجعفر اپنے ہی اعتراف جرم سے مکرگیا۔

ظاہرجعفر نے ٹرائل کے دوران کیس کو غیرت کے نام پر قتل کا رخ دینے کی بھی کوشش کی، پھر مقتولہ پر منشیات کی پارٹی کا اہتمام کرنے کا الزام لگایا۔

مدعی وکیل شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ نورمقدم قتل کیس میں سی ڈی آر، ڈی وی آر، فارنزک اور ڈی این اے پرمبنی ٹھوس شواہد سائنسی ٹیکنالوجی سے تصدیق شدہ ہیں۔

پراسیکیوٹر رانا حسن نے کہا کہ ظاہرجعفر جائے وقوعہ سے آلہ قتل کے ساتھ گرفتار ہوا، قمیض خون آلود تھی، عدالت اسے مثالی کیس بنانے کیلئے سخت سزا دے۔

اسلام آباد

murder case

Zahir Jaffer

noor mukaddam