محسن بیگ کیخلاف کیس: ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو شوکاز نوٹس جاری
رپورٹ: آصف نوید
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سینئر صحافی محسن بیگ کیخلاف مقدمے میں ایس او پیز کی خلاف ورزی پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کردئیے جبکہ عدالت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو بھی طلب کرلیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی محسن بیگ کیخلاف پیکا ایکٹ اور انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج کی گئی ایف آئی آرز کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی، ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ بابر بخت عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپکا کام لوگوں کی حفاظت کرنا ہے، کسی ایلیٹ کی پرائیویٹ ریپوٹیشن بحال کرنا نہیں، یہ عدالت ایف آئی اے کو کسی کے بنیادی حقوق متاثر کرنے نہیں دے گی۔
ڈاریکٹر ایف آئی اے کے قانون پڑھنے سے متعلق استدعا پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ اپنے آپ کو شرمندہ کر رہے ہیں، یہ ایک اختیارات کے ناجائز استعمال کا کلاسک کیس ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ٹی وی ٹاک شو میں کتنے لوگ تھے؟ کیا تمام لوگوں نے یہی بات کی؟ کیا آپ نے باقیوں کو گرفتار کیا؟ اس کیس کو سٹرک ڈاؤن کیا جانا چاہیئے تھا، آپ نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کیس بنایا۔ ایک جمہوری معاشرے میں ایف آئی اے کا یہ کنڈکٹ رہے گا تو ان آئینی عدالتوں کو بند کر دیں، کیا ایف آئی اے عوام کی خدمت کیلئے ہے یا پبلک آفس ہولڈرز کی؟ آپ کو ہر دفعہ بلا کر طریقے سے سمجھایا ہے کہ یہ نہ کریں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا کتاب کا ریفرنس دینا تضحیک ہے؟ کیا ملزم نے کتاب کا صفحہ پروگرام میں پڑھا؟
ڈائریکٹر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ ملزم نے کتاب کا صفحہ نہیں پڑھا جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ عدالت آپ کو شوکاز نوٹس دے رہی ہے، آپ نے عدالت کے ساتھ فراڈ کیا۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہا کہ ہم بھی آپ کے بچے ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ نہ آپ میرے بچے ہیں، نہ میں کسی کا باپ ہوں، ہم یہاں عوام کی خدمت اور سہولت کیلئے ہیں۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے نے 21 ڈی کا قانون پڑھنے کی اجازت طلب کی تو عدالت نے ریمارکس دیئے کہ قانون پڑھ کر آپ اپنے آپ اور ایف آئی اے کو مزید شرمندہ کریں گے۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے نے 21 ڈی کا قانون پڑھ کر سنایا تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ کو سمجھ آ رہی ہے کہ آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟ اس کا مطلب آپ کو معلوم ہے؟ یہاں آپ کے سر شرم سے جھک جانے چاہیئں، آپ یہاں مزید بحث کر رہے ہیں، کیا اس ملک میں مارشل لا لگا ہوا ہے؟ آپ نے اس عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی کی، عدالت آپ کو شوکاز نوٹس جاری کرتی ہے، عدالت معاملے پر اٹارنی جنرل آف پاکستان کو پیش ہونے کا حکم دیتی ہے، لکھ کر دیں کہ کس نے آپ کو کس نے یہ سب کرنے کیلئے کہا تھا، یہ عدالت آزادی اظہار رائے پر قدغن برداشت نہیں کرے گی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ ایف آئی اے عوامی نمائندگان کیلئے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر رہی ہے، کیا اس کیس میں سیکشن 21 ڈی بنتا ہے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس کیس میں سیکشن 21 ڈی بالکل نہیں بنتا۔ سیکشن 20 کیخلاف بالکل لوگوں کا سیف گارڈ ہونا چاہیئے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان دنیا کا صحافیوں کیلئے 8 واں ترین غیر محفوظ ملک قرار دیا گیا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ فحاشی بالکل نہیں ہونی چاہیئے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ میرٹ ہے اوپر بات کرنا چاہتے ہیں تو بتائیں یہاں فحاشی کہاں ہے؟ اگر کوئی کسی کتاب کا حوالہ دے رہا ہے تو اس میں کیا فحاشی ہے؟ سب سے بڑی فحاشی اختیارات کا غلط استعمال، آزادی اظہار رائے پر پابندی اور آئین کا احترام نہ کرنا ہے۔
دوران سماعت لطیف کھوسہ نے مؤقف اپنایا کہ وزیر اعظم اس معاملے میں ملاقات کرکے جج کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا کہہ رہے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جج کی آپ فکر نہ کریں، اسلام آباد ہائیکورٹ کا کوئی جج یا ماتحت جج دھمکایا نہیں جاسکتا۔ جو بھی آپ کی ریمیڈی ہے وہ آپ ٹرائل کورٹ میں بتادیں، پیکا کی جو درخواست ہے وہ آپ سے الگ ہے کیونکہ اس حوالے سے یہاں کیس زیر سماعت ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کے ساتھ اٹارنی جنرل کو بھی ایف آئی اے کے دفاع کیلئے 24 فروری کو طلب کر لیا۔
عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل مطمئن کریں کہ اس جرم سے متعلق دفعہ کوکیوں نہ ختم ہی کردیا جائے؟
عدالت نے ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سے کہا کہ بیان حلفی جمع کرائیں کہ ان کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال پرکیوں کارروائی نہ کی جائے؟
اسلام آباد ہائیکورٹ نے محسن بیگ کے گھر ایف آئی اے کے چھاپے کے خلاف درخواست پر سماعت جمعرات24 فروری تک ملتوی کر دی۔
Comments are closed on this story.