مہنگائی کی وجہ سے کینو پروسیسنگ کی 100 فیکٹریاں بند
کورونا وبا کے دوران سپلائی سائیڈ میں رکاوٹوں کے ساتھ کاروبار کرنے کی بڑھتی ہوئی لاگت نے پاکستان کی کینو پروسیسنگ انڈسٹری کو نقصان پہنچایا ہے۔
پاکستان بزنسز فورم کے نائب صدر احمد جواد نے ٹریبیون کو بتایا کہ صرف سرگودھا ضلع میں 100 کے قریب کینو پروسیسنگ فیکٹریاں بند ہوگئیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافے اور وبائی امراض کی وجہ سے محدود ہوجانے سے ہونے والے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سے قبل مذکورہ ضلع میں 250 سے زائد ایسی فیکٹریاں کام کر رہی تھیں۔
احمد جواد نے اس بات پر زور دیا کہ کسانوں کو کم معیار کی کھاد خریدنے پر مجبور کیا گیا کیونکہ "اچھی کوالٹی کی یوریا کی قیمت میں 200 فیصد اضافہ ہوا ہے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کی وجہ سے کم پیداوار ہوئی، جس سے کینو کے سائز اور معیار پر منفی اثر پڑا۔
پاکستان بزنسز فورم کے نائب صدر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عالمی شپنگ کی شرحوں میں زبردست اضافے کی وجہ سے پچھلے 2 سالوں میں تقریباً 4 بار مقامی کینو پروسیسنگ انڈسٹری کی برآمدات کو بری طرح متاثر کیا۔
جواد نے زور دیا کہ اس شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مدعو کرنا ضروری ہے اور حکومت کے تعاون کی اشد ضرورت ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اس سے نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا بلکہ کسانوں کو بھی فائدہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس سلسلے میں ترقی پسند اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان بزنسز فورم کے نائب صدر احمد جواد کہا کہ جہاں تک ملک کی برآمدات کا تعلق ہے کینو ایک اثاثہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین پاکستانی پھلوں اور سبزیوں کے لیے سب سے پرکشش منڈیوں میں سے ایک ہے، کیونکہ اس کے صارفین کی قوت خرید ہے۔
جواد نے کہا کہ "یورپی مارکیٹ میں پاکستانی کینو کی دستیابی ایک ٹیبل فروٹ کے طور پر بے قاعدہ اور برائے نام ہے۔"
ان کے مطابق پاکستانی کینو بنیادی طور پر یورپ کی چند بڑی کمپنیاں اس کا رس نکالنے کے لیے خام مال کے طور پر استعمال کرتی تھیں۔
لیکن اسے ٹیبل فروٹ کے طور پر مستقل طور پر درآمد نہیں کیا جاتا تھا۔
Comments are closed on this story.