لارڈ نذیر جنسی زیادتی کا مجرم قرار، فیصلے پر اپیل کرنے کا اعلان
لندن: برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز کے سابق رکن لارڈ نذیر احمد نے اعلان کیا کہ وہ شیفیلڈ کراؤن کورٹ میں ایک جیوری کی طرف سے سنائی گئی سزا کیخلاف اپیل کریں گے جو ان کیخلاف مبینہ جنسی جرائم کی ہے ۔
لارڈ نذیر کے قانونی نمائندے نے فیصلے پر حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ "فیصلے شیفیلڈ کراؤن کورٹ میں مقدمے کی سماعت کے دوران جیوری کے سامنے پیش کیے گئے شواہد کے بالکل خلاف گئے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ "ہم نے اپنے وکلاء کو سزا کیخلاف اپیل کرنے کی ہدایت کی ہے۔"
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ لارڈ نذیر کو 1970 کی دہائی میں ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی کی کوشش کرنے کا مجرم پایا گیا ہے۔
اس وقت لارڈ نذیر نوجوان، ان کے ساتھ فرسٹ کزن تھے جو نوعمری میں تھے۔
لارڈ احمد کو بھی اسی عرصے کے دوران ایک لڑکے کیخلاف سنگین جنسی زیادتی کا مجرم قرار دیا گیا تھا، اس کیس میں نوعمر لارڈ نذیر کا فرسٹ کزن بھی تھا۔
شیفیلڈ کراؤن کورٹ کے ججوں کو بتایا گیا کہ رودرہم میں کئی سالوں میں "کئی بار جنسی زیادتیاں رپورٹ" ہوئی ہے۔
لارڈ نذیر 64 سالہ برطانوی کشمیری سیاستدان ہے جس نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ انہیں نشانہ بنایا گیا ہے۔
جج جسٹس لیوینڈر بعد میں فیصلہ کریں گے کہ لارڈ احمد کو کب سزا سنائی جائے گی۔
مقدمے کی سماعت کے آغاز پر پراسیکیوٹر ٹام لٹل کیو سی نے عدالت کو بتایا کہ لارڈ نذیر احمد نے 1970 کی دہائی کے اوائل میں لڑکی کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی تھی جب مدعا علیہ کی عمر 16 یا 17 سال تھی لیکن وہ اس سے بہت کم عمر تھی۔
لٹل نے کہا کہ لارڈ نذیر احمد نے دعویٰ کیا کہ یہ الزامات ایک "بد نیتی پر مبنی افسانہ" ہیں لیکن دونوں متاثرین کے درمیان ہونے والی گفتگو کی فون ریکارڈنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ "من گھڑت" نہیں تھے۔
پولیس کو 2016 میں کی جانے والی کال اس خاتون نے کی تھی اور احمد کے خلاف الزامات دو درخواستگزاروں نے لگائے جس میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی شامل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ لارڈ نذیر 1971 اور 1974 کے درمیان مبینہ جنسی واقعات میں ملوث ہے جب وہ نوعمر تھا۔
لارڈ نذیر کے کیس میں کئی موڑ آئے، فرد جرم عائد ہونے کے بعد یہ مقدمہ پہلی بار مارچ 2019 میں شروع ہوا، اور پھر یہ مارچ 2020 میں ختم ہو گیا، جب جیوری کو فارغ کر دیا گیا۔
لارڈ نذیر احمد کو عدالت کی جانب سے زیادتی کا مجرم قرار دینے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑ گئی ہے جس میں کئی صارفین نے ان کے خلاف ٹویٹس کیے تو کچھ صارفین ان کی حمایت میں ٹویٹس کیں۔
Comments are closed on this story.