صحافتی تنظیموں کی ڈان کے فوٹو جرنلسٹ پر تشدد کی شدید مذمت
کراچی: صحافتی تنظیموں نے ڈان کے فوٹو جرنلسٹ پر سندھ رینجرز کی جانب سے تشدد پر سخت مذمت کی ہے۔ انہوں نے صحافیوں کے تحفظ کے قانون کے تحت ایکٹ کے مطابق ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
کراچی یونین آف جرنلسٹس نے ٹوئٹ کیا کہ فیصل مجیب کو پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی سے روکا، ان کا کیمرہ توڑ دیا اور ایک گھنٹے تک انہیں غیرقانونی حراست میں رکھا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ "قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے منظور جرنلسٹس پروٹیکشن ایکٹ کے تحت ملوث اہلکاروں کیخلاف کارروائی کی جائے"۔
رینجرز اہلکاروں نے فیصل مجیب کو جمعرات کی شام عزیز آباد میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ایک پروگرام کی کوریج کرتے وقت زدوکوب کیا تھا۔
مجیب نائن زیرو کے قریب 'یومِ شہدا' کی تقریب کی کوریج کر رہے تھے۔
ڈان کی رپورٹ کے مطابق واقعے کے بارے میں مجیب نے بتایا کہ وہ تقریب کی کوریج کے لیے ٹبہ ہسپتال کے گیٹ کے قریب کھڑے تھے جہاں متحدہ کے بہت سے کارکنان موجود تھے۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے الطاف حسین کے حق میں نعرے لگانے شروع کر دیے۔ "ڈیوٹی پر موجود رینجرز اہلکاروں کو ان کارکنان کو حراست میں لینے کے لیے کہا گیا۔ اسی دوران مجھے اور ایک اور میڈیا ورکر محبوب احمد چشتی کو بھی اٹھا لیا گیا"۔
مجیب کا کہنا تھا کہ انہوں نے پریس فوٹوگرافر کے طور پر اپنی شناخت ثابت کرنے اور رینجرز اہلکاروں کو یقین دلانے کی پوری کوشش کی کہ وہ ڈان کی طرف سے ڈیوٹی پر ہیں۔ تاہم اہلکاروں نے ان کی ایک نہ سنی اور انہیں مارنا شروع کر دیا۔
اس واقعہ کے دوران ان کا کیمرہ اور موبائل فون بھی ٹوٹ گیا۔
مجیب کو تقریباً ایک گھنٹے تک حراست میں رکھ کر شدید مار پیٹ کا نشانہ بنایا گیا۔ انہیں اس وقت رہا کیا گیا جب ایک رینجرز افسر نے اپنے ذرائع سے ان کی شناخت کی تصدیق کرائی۔
وائس پی کے۔نیٹ کی رپورٹ کے مطابق نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئےوفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے نیوز میڈیا کے کیمرہ پرسنز اور فوٹو جرنلسٹس کو یقین دلایا ہے کہ نئے قانون سازی پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021 کے حوالے سے ان کے تحفظات کو بل کے وضع کردہ قواعد میں دور کیا جائے گا۔
فوٹو جرنلسٹس نئے قانون سے ناخوش تھے کیونکہ یہ انہیں صحافی کے بجائے میڈیا پروفیشنلز کے طور پر شناخت کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کے حقوق کو دبانے اور ان کے کام کو معمولی بنانے کے مترادف ہے۔
Comments are closed on this story.