Aaj News

اتوار, نومبر 03, 2024  
01 Jumada Al-Awwal 1446  

آئندہ سماعت پر اصل حلف نامہ نہ آیا تو راناشمیم پر فرد جرم عائد کریں گے، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہین عدالت کیس میں سابق جج گلگت بلتستان...
اپ ڈیٹ 07 دسمبر 2021 05:57pm

رپورٹ آصف نوید

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہین عدالت کیس میں سابق جج گلگت بلتستان رانا شمیم سے اصل حلف نامہ طلب کرلیا ، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا چاہتے ہیں میرے سمیت تمام ججزکی انکوائری شروع ہو جائے، الزامات اس عدالت کے ججز پرہیں، چیلنج کرتا ہوں میرے کسی جج نےکسی کیلئے کوئی دروازہ نہیں کھولا ، آئندہ سماعت پر اصل حلف نامہ نہ آیا تو رانا شمیم پر فرد جرم عائد کریں گے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے بیان حلفی سے متعلق خبر پر توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی،سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم،اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے اخبار کے مالک کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظورکرلی ۔

چیف جسٹس ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے جواب جمع کروا دیا ہے؟جس پر رانا شمیم نے بتایاکہ 4روز قبل جواب وکیل کے حوالے کردیا تھا۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اخبارمیں رپورٹنگ کا کیا معیار ہے؟رانا شمیم کہتے ہیں انہوں نے بیان حلفی نہیں دیا؟ کیا اسی طرح سے اشاعت کرسکتے ہیں، بیان حلفی سے عدالت کی ساکھ پر سوالیہ نشان اٹھایا گیا۔

عدالتی معاون فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ کسی دستاویز کو شائع کرنے سے پہلے تمام متعلقہ فریقین سے مؤقف لینا ضروری ہے،کیس میں رجسٹرار سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ سے مؤقف نہیں لیا گیا،بیان حلفی یا خبرشائع کرنے کی کیا ایمرجنسی تھی ؟ ۔

رانا شمیم نے کہا کہ یہ خفیہ دستاویز تھا اور اسے شائع کرنے کیلئے نہیں رکھا گیا تھا،اگر رانا شمیم کا دستاویز پرائیویٹ ہے تو پھر ان پر توہین عدالت نہیں بنتی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کی کارروائی کسی جج کی عزت بچانے کیلئے نہیں ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نےرانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی سے مکالمے کہا کہ آپ کو پہلے معاملہ سمجھا دیتا ہوں، ہم جج پریس کانفرنس نہیں کر سکتے، وضاحت نہیں دے سکتے،تاثر دیا گیا کہ ایک مخصوص شخص الیکشن سے پہلے رہا نہیں ہونا چاہیئےاور ججز پر دباؤ ڈالا گیا، یہ بیان حلفی شائع کرنا بھی اسی بیانیے کی ایک کڑی ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ رانا شمیم نے کہا کہ ایک سابق چیف جسٹس نے ان کے سامنے اتنا سنگین جرم کیا،جسٹس عامر فاروق اس وقت چھٹیوں پر تھے، جب متعلقہ اپیلوں پر سماعت تھی، کیا چھٹیوں پر موجود جج نے باقی 2ججز کا بھی سمجھوتہ کرایا؟ بینچ جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب شامل تھے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ نواز شریف کی رہائی پر بھی اسی طرح کی خبریں شائع کی گئیں، یہ تاثر دیا گیا کہ رہائی الیکشن سے پہلے نہیں ہوئی بعد میں ہوئی ہے، یہ تاثر دیا گیا کہ اس ہائیکورٹ کے تمام ججز نے سمجھوتہ کیا،یہ کیوں ہوا کہ رانا شمیم نے 3 سال بعد بیان حلفی لکھا؟یہ تاثر دیا گیا کہ ہائیکورٹ کے تمام ججز نے سمجھوتہ کر رکھا ہے، اگر ضمیر جاگ گیا تھا تو بیان حلفی کہیں جمع کراتے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ اصل بیان حلفی کہاں ہے ؟ میرے ججز کی غیر جانبداری پر سوال اٹھا ہے، میں نے اپنی پوری زندگی کسی کو خود تک رسائی نہیں دی،میرے دروازے ہر کسی کیلئے بند رہے،میں چیف جسٹس ہوں ، میرے سامنے کوئی چیف جسٹس ایسا جرم کرتا تو مجھے کیا کرنا چاہیئے تھا؟یہ ایک مسئلہ ہے جب کوئی کرسی پر بیٹھا ہوتا ہے تو ضمیر نہیں ہوتا، کافی عرصے بعد ضمیر جاگ جاتا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ میرے کسی جج پر کوئی اثرانداز اس لئے نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ یہ دروازہ نہیں کھولتے، جسٹس وقار سیٹھ پر کوئی دباؤ اس لئے نہیں ڈال سکتا تھا کیونکہ وہ کسی کیلئے دروازہ نہیں کھولتے تھے،اس عدالت کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے کوئی غرض نہیں، یہ مسئلہ اس عدالت کے اپیلیں سننے والے بینچ میں شامل ججز پر الزام لگانے کا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پہلے رانا شمیم کو بیان حلفی پیش کر کے اپنی اچھی نیت ثابت کرنی ہو گی ،اگر پیر کو رانا شمیم بیان حلفی پیش نہیں کرتے تو فرد جرم عائد کریں گے۔

وکیل لطیف آفریدی نے عدالت سے درخواست کی کہ اصل بیان حلفی رانا شمیم کے پوتے کے پاس ہے ،رانا شمیم کو بیان حلفی لینے باہر جانے دیں۔

عدالت نے رانا شمیم کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کی استدعا مسترد کر دی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ نہیں نہیں ، وہ باہر نہیں جا سکتے،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا انہیں بیان حلفی پاکستانی سفارتخانے کو دینا تھا وہ پاکستان آ جاتا ۔

رانا شمیم نےتوہین عدالت شوکازنوٹس پراسلام آباد ہائیکورٹ میں تحریری جواب جمع کرا دیا

دوسری جانب سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نےتوہین عدالت شوکازنوٹس پراسلام آباد ہائیکورٹ میں تحریری جمع کرا دیا۔

رانا شمیم نےتحریری جواب جمع میں بتایاکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکا ان حقائق پرسامنا کرنے پرتیارہوں،ثاقب نثارسے گفتگو گلگت میں ہوئی،واقعے 15جولائی 2018 کی شام 6بجے کا ہے ،مرحومہ بیوی سے وعدہ کیا تھا حقائق ریکارڈ پرلاؤں گا ،مرحومہ اہلیہ سے جذباتی دباؤ میں وعدہ نبھانے کیلئے کیا ۔

رانا شمیم نے تحریری جواب میں کہا کہ برطانیہ میں بیان ریکارڈ کرانے کا مقصد بیرون ملک محفوظ رکھنا تھا ،کسی سےشیئرکیا نہ ہی پریس میں جاری کیا ،زندگی میں بیان حلفی پبلک نہیں کرنا چاہتا تھا۔

سابق چیف جج گلگت بلتستان نے تحریری جواب میں مزیدکہاکہ عدلیہ کومتنازعہ بنانا مقصد نہیں تھا جوکچھ ہوااس پرافسوس کااظہارکرنےمیں کوئی ہچکچاہٹ نہیں۔

تحریری جواب میں توہین عدالت کاشوکازنوٹس واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہاگیاکہ اگرعدلیہ کی توہین کا ارادہ ہوتاتوبیان حلفی ریکارڈ کرا کےمیڈیا کوجاری کرتا،بیان حلفی پبلک نہیں کیا ،توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہوسکتی۔

مجھے کسی نے دھمکی نہیں دی، میری گاڑی کا پیچھا کیا جاتا ہے، رانا شمیم

دوسری جانب سابق چیف جج گلگت بلتستان راناشمیم نے آج نیوز سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے کسی نے دھمکی نہیں دی تاہم میری گاڑی کا پیچھا کیا جاتا ہے، گاڑی کا نمبر اپنے وکیل کو بتادیا ہے۔

IHC

اسلام آباد

Chief Justice Athar Minallah

Rana Shamim