تحریک لبیک،پابندی لگنے سے پابندی ہٹنے تک ۔ ۔ ۔ کب ،کب کیا ہوا؟
حکومت سے معاہدے کے بعد تحریک لبیک سے اب کالعدم کا لفظ ہٹ گیا ہے، اپنی تشکیل سے لے کر تاحال تحریک لبیک نے اپنے مطالبات کے حق کی منظوری کیلئے سات مرتبہ احتجاج کیا ہے اور ہرمرتبہ انکا حکومت سے زبانی کلامی یا پھر تحریری معاہدہ ہوگیا ہے۔
بارہ اپریل دوہزار اکیس ، ٹی ایل پی کے امیر سعد رضوی کی گرفتاری
احتجاج کی دھمکی کے بعد بارہ اپریل دوہزار اکیس کو حکومت نے تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد رضوی کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے انکو حراست میں لے لیا اور ان پر انسداد دہشتگردی کے قانون کے تحت مقدمات بنائے گئے۔
تیرہ اپریل دوہزار اکیس ، ٹی ایل پی کارکنان کا احتجاج
بعدازاں تیرہ اپریل کو سعد حسین رضوی کی گرفتاری کے بعد تنظیم کارکنان سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے اس گرفتاری پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
پندرہ اپریل دوہزار اکیس، ٹٰی ایل پی کالعدم قرار
پندرہ اپریل کو ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے کا اعلان کیا گیا۔وفاقی کابینہ کی جانب سے ٹی ایل پی پر پابندی کی منظوری کے بعد وفاقی وزارت داخلہ نے ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے کا نوٹی فکیشن جاری کردیا۔ یہ اقدام سعد رضوی کی گرفتاری کے بعد تنظیم کارکنان کی جانب سے مظاہروں کے بعد کیا گیا۔
جولائی دوہزار اکیس ، لاہورہائیکورٹ کے نظرثانی بورڈ کا حکم
دو جولائی کو لاہورہائیکورٹ کے ریویو بورڈ نے وزارت داخلہ پنجاب کی سعد رضوی کو حراست میں رکھنےکی توسیع کی درخواست مسترد کردی اور آٹھ جولائی کو اس حوالے سے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ اگر سعد رضوی مزید کسی مقدمے میں مطلوب نہیں ہیں تو انکو فوری طور پر رہا کیا جائے۔
جولائی دوہزار اکیس، سعد رضوی کی رہائی نہ ہوسکی
لاہور ہائیکورٹ کے ریویو بورڈ کے فیصلے پیش نظر سعد رضوی کی رہائی دس جولائی کو کی جانی تھی تاہم اس پر عمل نہ ہوسکا اور ڈپٹی کمشنر لاہور نے مشتبہ اشخاص کو مزید نوے روز میں حراست میں رکھنے کا نوٹی فکیشن سیکشن الیون – ای ای ای کے تحت جاری کردیا اور اس سیکشن کے تحت سعد رضوی کو مزید نوے روز کیلئے حراست میں لے لیا گیا،۔
اکتوبر سعد رضوی کی حراست اور سپریم کورٹ کا حکم
یکم اکتوبر دوہزار اکیس کو لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے ٹی ایل پی سربراہ سعد رضوی کی حراست کو غیرقانونی قرار دیا گیا ، لاہور ہائیکورٹ میں سعد رضوی کی رہائی کیلئے پٹیشن انکے چہچا کی طرف سے دائر کی گئی تھی۔ تاہم حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ سے رابطہ کرنے پر انکی حراست میں توسیع کردی گئی۔
اکیس اکتوبر ، ٹی ایل پی کا ناموس رسالت لانگ مارچ کا اعلان
اکیس اکتوبر کو ٹی ایل پی کی جانب سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا اور کہا گیا کہ بائیس مارچ کو بروز جمعے کو یہ مارچ اسلام آباد کی طرف روانہ ہوگا۔
بائیس اکتوبر، ٹی ایل پی مارچ کا آغاز، پولیس اور ٹی ایل پی کارکنان میں جھڑپیں
بائیس اکتوبر کو مارچ میں پولیس اور ٹی ایل پی کارکنان کے درمیان جھڑپوں میں کئی مظاہرین زخمی ہوئے جبکہ دو پولیس اہلکاروں کے ہلاک ہونے کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہوگیا۔
اٹھائیس اکتوبر ، وفاق کا ٹی ایل پی سے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان
اٹھائیس اکتوبر کو وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ٹی ایل پی سے مذاکرات کے امکان کو مسترد کردیا اور کہا کہ جب تک اسکے کارکنان دھرنا ختم نہیں کرتے اور پولیس اہلکاروں کے قتل میں ملوث ملزمان کو حوالے نہیں کرتے ،ان سے مذاکرات نہیں ہوسکتے۔
انتیس اکتوبر کو ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی کارروائی
انتیس اکتوبر کو ایف آئی اے نے ٹی ایل پی کے سوشل میڈیا اکاونٹس کیخلاف کارروائی کی اور اس حوالے سے بارہ ملزمان کو حراست میں لیا گیا ۔
قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ، ٹی ایل پی معاملے پر تبادلہ خیال
انتیس اکتوبر کو ہی قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا اجلاس میں ٹی ایل پی معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا ، اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کاکہنا تھا کہ کسی بھی جماعت کو اجازت نہیں دی جاسکتی کہ تشدد کے ذریعے حکومت پر دباو ڈالے، تاہم میڈیا اطلاعات کے مطابق اجلاس میں حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ معاملے کو افہام و تفہم سے سلجھایا جائے۔
اکتیس اکتوبر ، ٹی ایل پی سے معاہدہ ، مفتی منیب کی پریس کانفرنس
اکتیس اکتوبر حکومت اور ٹی ایل پی میں معاہدے کا اچانک اعلان کردیا گیا۔
اکتیس اکوبتر کو معروف عالم دین اوررویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمان نے اعلان کیا کہ حکومت اور کالعدم ٹی ایل پی کے درمیان معاہدہ طے پاگیا ہے۔
اسلام آباد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، علی محمد خان اور مفتی منیب الرحمان نے مشترکہ پریس کانفرنس کی جبکہ تحریک لبیک شوریٰ کے علامہ غلام عباس فیضی اور مفتی محمد عمیر بھی پریس کانفرنس میں شریک ہوئے۔
مفتی منیب الرحمان کا کہنا تھا کہ مسلح افواج کے جوان دفاع وطن اور پولیس کے جوان فرض منصبی ادا کرتے ہوئے شہید ہوئے، تحریک لبیک کے دھرنے پر وزیر اعظم نے سنجیدہ اور ذمہ داران پر مشتمل 3 رکنی کمیٹی قائم کی، حکومتی کمیٹی میں شاہ محمود قریشی، اسد قیصر اور علی محمد خان شامل تھے۔
چھ نومبر ٹی ایل پی سے پابندی ہٹانے کی منظوری
چھ نومبر کو تحریک لبیک پاکستان سے تمام پابندیاں ہٹانے کی منظوری دے دی گئی ۔ وفاقی حکومت نے ٹی ایل پی پر بھی پابندی ہٹانے کی منظوری دے دی۔ کابینہ نے سرکولیشن سمری کے ذریعے پابندی ختم کرنے کی منظوری دی۔ ذرائع کے مطابق وزارت داخلہ نے کابینہ کو پابندی ہٹانے کی سمری بھیجی تھی۔
پس منظر
گزشتہ برس فرانس میں حضور صلی اللہ وسلم کے گستاخانہ خاکے بنانے کے بعد ایک طالبعلم نے اس پروفیسر کو قتل کردیا تھا جس کے بعد فرانس میں مسلمانوں اور حکومت کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی تاہم ایسے میں فرانسیسی صدر کے متنازعہ بیان نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔
بعدازاں اس حوالے سے مختلف ممالک میں احتجاج کیا گیا تھا اور پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں پر تحریک لبیک پاکستان نے بھرپور احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔احتجاج کے دوران تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان گزشتہ سال نومبر میں مذاکرات کے نتیجے میں معاہدہ طے پایا تھا ۔
مذاکرات میں حکومت نے ٹی ایل پی کے تمام مطالبات تسلیم کرلیے تھے ۔ معاہدے کے تحت حکومت فرانسیسی سفیر کا معاملہ پارلیمان میں لیجائے گی اور تین ماہ میں فرانس کے سفیر کو ملک سے نکال دیا جائے گا اور فرانس سے تعلقات کو معطل کردیا جائےگا۔
تاہم ٹی ایل پی کی جانب سے اپنے مطالبات پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا گیا تھا اور مطالبات پر عدم عمل درآمد پر احتجاج کی دھمکی دی گئی تھی۔
Comments are closed on this story.